ٹیگ کے محفوظات: ہشیاری

جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے

دیوان پنجم غزل 1765
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی
جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے
چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ
سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے
آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جاے نہیں
صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے
مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر
جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے
پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں
آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے
بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ
عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر
اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے
آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی
یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے
واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میر
عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے
میر تقی میر

کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1372
رنج کیا کیا ہم نے کھینچے دوستی یاری کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ
دوش و آغوش و گریباں دامن گلچیں ہوئے
گل فشانی کر رہی ہے چشم خونباری کے بیچ
ایک کو اندیشۂ کار ایک کو ہے فکر یار
لگ رہے ہیں لوگ سب چلنے کی تیاری کے بیچ
منتظر تو رہتے رہتے پھر گئیں آنکھیں ندان
وہ نہ آیا دیکھنے ہم کو تو بیماری کے بیچ
جان کو قید عناصر سے نہیں ہے وارہی
تنگ آئے ہیں بہت اس چار دیواری کے بیچ
روتے ہی گذری ہمیں تو شب نشینی باغ کی
اوس سی پڑتی رہی ہے رات ہر کیاری کے بیچ
یاد پڑتا ہے جوانی تھی کہ آئی رفتگی
ہو گیا ہوں میں تو مست عشق ہشیاری کے بیچ
ایک ہوویں جو زبان و دل تو کچھ نکلے بھی کام
یوں اثر اے میر کیا ہو گریہ و زاری کے بیچ
میر تقی میر

اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 73
حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے، کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تیری چارہ گری کیا، میری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دِل ناداں نے دِکھا رکھی ہے ہشیاری کیا
قید خانے سے نکل آئے تو صحرا کا حصار
ہم سے ٹوٹے گی یہ زنجیرِ گرفتاری کیا
وہ بھی یک طرفہ سخن آراء ہیں، چلوں یوں ہی سہی
اتنی سی بات پہ یاروں کی دل آزاری کیا
عرفان صدیقی