ٹیگ کے محفوظات: گہنا

ہمیں ہر حال میں غزل کہنا

نت نئی سوچ میں لگے رہنا
ہمیں ہر حال میں غزل کہنا
صحنِ مکتب میں ہمسِنوں کے ساتھ
سنگریزوں کو ڈھونڈتے رہنا
گھر کے آنگن میں آدھی آدھی رات
مل کے باہم کہانیاں کہنا
دن چڑھے چھاؤں میں ببولوں کی
رَمِ آہو کو دیکھتے رہنا
ابر پاروں کو، سبزہ زاروں کو
دیکھتے رہنا سوچتے رہنا
شہر والوں سے چھپ کے پچھلی رات
چاند میں بیٹھ کر غزل کہنا
ریت کے پھول، آگ کے تارے
یہ ہے فصلِ مراد کا گہنا
سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے
چاندنی کا لباس کیوں پہنا
کیا خبر کب کوئی کرن پھوٹے
جاگنے والو جاگتے رہنا
ناصر کاظمی

آنے والے آ نہ سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
ہم پہ کرم فرما نہ سکے
آنے والے آ نہ سکے
دے گئے رنج بکھرنے کا
پھُول بھی دل بہلا نہ سکے
کر کے مقّید بھی وہ مجھے
بات مری جھٹلا نہ سکے
میری آس کے آنگن کے
چاند کبھی گہنا نہ سکے
ہم نہ ہوئے تسلیم جنہیں
وہ بھی ہمیں ٹھکرا نہ سکے
ماجدؔ کیا کیا رنج تھے جو
لوگ زباں پر لا نہ سکے
ماجد صدیقی