ٹیگ کے محفوظات: گہربار

ہے کرب نمایاں تِرے انکار کے پیچھے

پوشیدہ ہے کچھ پردۂ اَسرار کے پیچھے
ہے کرب نمایاں تِرے انکار کے پیچھے
سایے کے بھلا کیا قد و قامت سے اُلجھنا
سورج سے تَو نمٹو جو ہے دیوار کے پیچھے
لَوٹ آئے ہیں خاموش نہ دیکھی گئی ہم سے
ارزانیٔ دل رونقِ بازار کے پیچھے
گر سچ ہے تمہیں ترکِ مراسم کا نہیں دکھ
پھر کیا ہے یہ سب چشمِ گُہَربار کے پیچھے
پاگل تو نہیں ہو جو یہ چہروں پہ سکوں ہے
کیوں بیٹھے ہو ہلتی ہوئی دیوار کے پیچھے
در اصل نگاہوں میں کھٹکتا ہے مرا سر
ہیں لوگ بظاہر مری دستار کے پیچھے
دنیا کی نگاہوں میں تو میں ناچ رہا ہوں
وہ ڈور لئے بیٹھا ہے دیوار کے پیچھے
کیوں لگتے ہیں یہ ٹوٹے ہوئے دل کی سی آواز
کیا راز ہے ضامنؔ ترے اشعار کے پیچھے
ضامن جعفری

گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہربار ہنوز

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 126
وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہربار ہنوز
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز
مرزا اسد اللہ خان غالب