ٹیگ کے محفوظات: گھر

تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 81
ہجر تھل ریت کا سمندر تھا
تیرے بن باسیوں کا یہ گھر تھا
آدھے حصے میں رنگ تھے موجود
آدھا خالی گلی کا منظر تھا
چھت بھی بیٹھی ہوئی تھی کمرے کی
اور دل کا گرا ہوا در تھا
اک سلگتی سڑک پہ بچے کے
پاؤں میں ایک ہی سلیپر تھا
مملکت کی خراب حالت تھی
میں اکیلا وہاں قلندر تھا
وہ تھی یونان کی کوئی دیوی
اور قسمت کا میں سکندر تھا
ایک بس وہ خدا نہ تھا منصور
ورنہ ہر چیز پہ وہ قادر تھا
منصور آفاق

تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 74
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا
تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے
مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جاؤں گا صحن میں اپنے
مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج
ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن
میں بار بار وہیں سے گزر کے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن
مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی
سوہاتھ زانوئے جاناں پہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی
سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب
تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی
میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوں گا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں
سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میں مہکے توچاندنی !تجھ سے
میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں
اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ ؤ تو
فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاں چھو لیں
گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں
کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا
میں برگ برگ ہوا میں بکھر کے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا
تماشا اپنے ہی حسنِ نظر کے دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
منصور آفاق

ایک جیسا کر دے مولا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 40
روشنی سے بھر دے مولا
ایک جیسا کر دے مولا
بے سہاروں ، بے کسوں کو
زندگی بہتر دے مولا
اچھی روٹی ،اچھے کپڑے
سب کو اچھے گھر دے مولا
ہرطرف دوزخ ہیں شر کے
خیر کے منظر دے مولا
بچے جتنے بھی ہیں ان کو
علم کا زیور دے مولا
ارتکازِ زر کے آگے
ہمتِ بوزر دے مولا
اِس معاشرتی گھٹن کو
نغمہِ صرصر دے مولا
نام پر اپنے نبیؐ کے
کٹنے والا سر دے مولا
شکل اچھی دی ہے لیکن
خوبرو اندر دے مولا
بس مدنیے کی گلی میں
نیکیوں کا در دے مولا
میرے پاکستان کو بھی
کوئی چارہ گر دے مولا
جان لوں منصور کو میں
چشمِ دیدہ ور دے مولا
منصور آفاق

نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ گھر کی صورت

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 37
اس کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت ہے، نہ گھر کی صورت
کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت
اپنی جیبوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار
اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
دیکھئے شیخ مصور سے کھچے یا نہ کھچے
صورت اور آپ سے بے عیب بشر کی صورت
واعظو آتش دوزخ سے جہان کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
کیا خبر زاہد قانع کو کہ کیا چیز ہے حرص
اس نے دیکھی ہی نہیں کیسۂ زر کی صورت
حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور
رہ گئی ہے یہی اک فتح و ظفر کی صورت
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کو اور آپ کے گھر کی صورت
الطاف حسین حالی

آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 17
ہو عزم دیر شاید کعبہ سے پھر کر اپنا
آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا
قید خرد میں رہتے آتے نہیں نظر ہم
وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہر اپنا
بیگانہ وش ہے گروہ تو ہے ہمارے ڈھب کا
ایسوں ہی سے نبھا ہے یارانہ اکثر اپنا
کچھ کذب و افترا ہے کچھ کذب حق نما ہے
یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا
غیروں کو لیں گے آخر اپنا بنا کے کیا ہم
اپنوں ہی سے ہے حالیؔ کچھ دل مکدر اپنا
ہو عزم دیر شاید کعبہ سے پھر کر اپنا
آتا ہے دور ہی سے ہم کو نظر گھر اپنا
قید خرد میں رہتے آتے نہیں نظر ہم
وحشت رہے گی دل کی دکھلا کے جوہر اپنا
بیگانہ وش ہے گروہ تو ہے ہمارے ڈھب کا
ایسوں ہی سے نبھا ہے یارانہ اکثر اپنا
کچھ کذب و افترا ہے کچھ کذب حق نما ہے
یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا
غیروں کو لیں گے آخر اپنا بنا کے کیا ہم
اپنوں ہی سے ہے حالیؔ کچھ دل مکدر اپنا
الطاف حسین حالی

کام اپنا، نام اُس کا کر چلے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 42
مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے
کام اپنا، نام اُس کا کر چلے
حشر میں اجلاس کس کا ہے کہ آج
لے کے سب اعمال کا دفتر چلے
خُونِ ناحق کر کے اِک بے جُرم کا
ہاتھ ناحق خُون میں تم بھر چلے
یہ ملی کس جُرم پر دم کو سزا؟
حُکم ہے دن بھر چلے شب بھر چلے
شیخ نے میخانے میں پی یا نہ پی
دخترِ رز کو تو رُسوا کر چلے
رہنے کیا دنیا میں آئے تھے امیر
سیر کر لی اور اپنے گھر چلے
امیر مینائی

گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 13
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت
چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت
وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت
ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر
گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت
تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی
پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت
جھانک کر روزنِ دیوار سے وہ تو بھاگے
رہ گیا کھول کے آغوش میں در کی صورت
تیغ گردن پہ کہ ہے سنگ پر آہیں دمِ ذبح
خون کے قطرے نکلتے ہیں شرر کی صورت
کون کہتا ہے ملے خاک میں آنسو میرے
چھپ رہی گرد یتیمی میں گہر کی صورت
نہیں آتا ہے نظر، المدد اے خضر اجل
جادۂ راہِ عدم موئے کمر کی صورت
پڑ گئیں کچھ جو مرے گرم لہو کی چھینٹیں
اڑ گئی جوہرِ شمشیر شرر کی صورت
قبر ہی وادیِ غربت میں بنے گی اک دن
اور کوئی نظر آتی نہیں گھر کی صورت
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت
آفت آغازِ جوانی ہی میں آئی مجھ پر
بجھ گیا شام سے دل شمعِ سحر کی صورت
جلوہ گر بام پہ وہ مہرِ لقا ہے شاید
آج خورشید سے ملتی ہے قمر کی کی صورت
دہنِ یار کی توصیف کڑی منزل ہے
چست مضمون کی بندش ہو کمر کی صورت
نو بہارِ چمنِ غم ہے عجب روز افزوں
بڑھتی جاتی ہے گرہ دل کی ثمر کی صورت
ہوں بگولے کی طرح سے میں سراپا گردش
رات دن پاؤں بھی چکر میں ہیں سر کی صورت
امیر مینائی

کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 254
ڈوب کر نبض ابھر آئی ہے
کیا کوئی ان کی خبر آئی ہے
غمزدہ غمزدہ، لرزاں لرزاں
لو شب غم کی سحر آئی ہے
کیا کوئی اپنا ستم یاد آیا
آنکھ کیوں آپ کی بھر آئی ہے
کیا محبت سے تعلق تجھ کو
یہ بلا بھی مرے سر آئی ہے
آپ کے اٹھتے ہی ساری دنیا
لغزشیں کھاتی نظر آئی ہے
زندگی کتنی کٹھن راہوں سے
باتوں باتوں میں گزر آئی ہے
ٹمٹمانے لگے یادوں کے چراغ
شب غم دل میں اتر آئی ہے
ہر لرزتے ہوئے تارے میں ہمیں
اپنی تصویر نظر آئی ہے
ایک برسا ہوا بادل جیسے
لو شب غم کی سحر آئی ہے
میرے چہرے پہ تبسم کی طرح
اک شکن اور ابھر آئی ہے
میری قسمت میں نہیں کیا باقیؔ
جو خوشی غیر کے گھر آئی ہے
باقی صدیقی

اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 250
میری فغاں کو باب اثر کی تلاش ہے
اس خانماں خراب کو گھر کی تلاش ہے
شبنم! تیرے ان آئنہ خانوں کی خیر ہو
میرے چمن کو برق و شرر کی تلاش ہے
بیٹھا ہوا ہوں غیر کے در پر شکستہ پا
کس مہ سے میں کہوں ترے در کی تلاش ہے
جس کی ضیا ہو دسترس شام غم سے دور
دنیا کو ایک ایسی سحر کی تلاش ہے
باقیؔ ہے ٹوٹنے کو اب امید کا طلسم
اک آخری فریب نظر کی تلاش ہے
باقی صدیقی

چند اینٹوں کانام گھر تو نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 142
زندگی حسن بام و در تو نہیں
چند اینٹوں کانام گھر تو نہیں
سر رہ حال پوچھنے والے
دل کی ہر بات مختصر تو نہیں
کیا کسی پر یقیں کریں باقیؔ
بے سہارا ہیں بے خبر تو نہیں
باقی صدیقی

تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 65
رنگ دل، رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا
وہ نظر بن گئی پیغام حیات
حلقہ شام و سحر یاد آیا
یہ زمانہ، یہ دل دیوانہ
رشتہ سنگ و گہر یاد آیا
یہ نیا شہر یہ روشن راہیں
اپنا انداز سفر یاد آیا
راہ کا روپ بنی دھوپ اپنی
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
کب نہ اس شہر میں پتھر برسے
کب نہ اس شہر میں سر یاد آیا
گھر میں تھا دشت نوردی کا خیال
دشت میں آئے تو گھر یاد آیا
گرد اڑتی ہے سر راہ خیال
دل ناداں کا سفر یاد آیا
ایک ہنستی ہوئی بدلی دیکھی
ایک جلتا ہوا گھر یاد آیا
اس طرح شام کے سائے پھیلے
رات کا پچھلا پہر یاد آیا
پھر چلے گھر سے تماشا بن کر
پھر ترا روزن در یاد آیا
باقی صدیقی

بھول گئے رستہ گھر کا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 45
ایسا وار پڑا سر کا
بھول گئے رستہ گھر کا
زیست چلی ہے کس جانب
لے کر کاسہ مرمر کا
کیا کیا رنگ بدلتا ہے
وحشی اپنے اندر کا
سر پر ڈالی سرسوں کی
پاؤں میں کانٹا کیکر کا
کون صدف کی بات کرے
نام بڑا ہے گوہرکا
دن ہے سینے کا گھاؤ
رات ہے کانٹا بستر کا
اب تو وہی جی سکتا ہے
جس کا دل ہو پتھر کا
چھوڑو شعر اٹھو باقیؔ
وقت ہوا ہے دفتر کا
باقی صدیقی

دور کا غم قریب تر جانا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 35
دل کو جب تیری رہگزر جانا
دور کا غم قریب تر جانا
بے نیازی سی بے نیازی تھی
اپنے گھر کو نہ اپنا گھر جانا
لے نہ ڈوبے کہیں یہ بے خبری
ہر خبر کو تری خبر جانا
اک نئے غم کا پیش خیمہ ہے
بے سبب زخم دل کا بھر جانا
تجھ سے آتی ہے بوئے ہمدردی
جانے والے ذرا ٹھہر جانا
ابتدائے سفر کا شوق نہ پوچھ
ہر مسافر کو ہم سفر جانا
زندگی غم کا نام ہے باقیؔ
ہم نے اب قصہ مختصر جانا
باقی صدیقی