ٹیگ کے محفوظات: گریبانوں

بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 95
عمر بھر خاک ہی کیا چھانتے ویرانوں کی
بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی
کون کہہ دے گا کہ باتیں ہیں دیوانوں کی
دھجیاں جیب میں رکھی ہیں گریبانوں کی
جا چکے چھوڑ کر آزادیاں ویرانوں کی
اب تو بستی میں خبر جائے گی دیوانوں کی
یادگاریں نہیں کچھ اور تو دیوانوں کی
دھجیاں ملتی ہیں صحرا میں گریبانوں کی
خیر محفل میں نہیں حسن کے دیوانوں کی
شمع کے بھیس میں موت آئی ہے پروانوں کی
تو بھی کب توڑنے کو پھول چلا ہے گلچیں
آنکھ جب کھل گئی گلشن کے نگہبانوں کی
صرف اک اپنی نمودِ سرِ محفل کے لئے
لاکھوں قربانیاں دیں شمع نے پروانوں کی
شمع کے بعد پتنگوں نے کسی کو پوچھا
کہیں پرسش ہوئی ان سوختہ سامانوں کی
لنگر اٹھتا تھا کہ اس طرح سے کشتی بیٹھی
جیسے ساحل سے حدیں مل گئیں طوفانوں کی
اے قمر رات کو مے خانے میں اتنا تھا ہجوم
قسمتیں کھل گئیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی
قمر جلالوی

یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی

دیوان اول غزل 461
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی
کیونکے کہیے کہ اثر گریۂ مجنوں کو نہ تھا
گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی
یہ بگولہ تو نہیں دشت محبت میں سے
جمع ہو خاک اڑی کتنے پریشانوں کی
خانقہ کا تو نہ کر قصد ٹک اے خانہ خراب
یہی اک رہ گئی ہے بستی مسلمانوں کی
سیل اشکوں سے بہے صر صر آہوں سے اڑے
مجھ سے کیا کیا نہ خرابی ہوئی ویرانوں کی
دل و دیں کیسے کہ اس رہزن دلہا سے اب
یہ پڑی ہے کہ خدا خیر کرے جانوں کی
کتنے دل سوختہ ہم جمع ہیں اے غیرت شمع
کر قدم رنجہ کہ مجلس ہے یہ پروانوں کی
سرگذشتیں نہ مری سن کہ اچٹتی ہے نیند
خاصیت یہ ہے مری جان ان افسانوں کی
میکدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میر
ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی
میر تقی میر

حشر کہتے ہیں جسے شہر ہے عریانوں کا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 5
دامنوں کا نہ پتہ ہے نہ گریبانوں کا
حشر کہتے ہیں جسے شہر ہے عریانوں کا
گھر ہے اللہ کا گھر بے سر و سامانوں کا
پاسبانوں کا یہاں کام نہ دربانوں کا
گور کسری و فریدوں پہ جو پہنچوں پوچھوں
تم یہاں سوتے ہو کیا حال ہے ایوانوں کا
کیا لکھیں یار کو نامہ کہ نقاہت سے یہاں
فاصلہ خانہ و کاغذ میں ہے میدانوں کا
دل یہ سمجھا جو ترے بالوں کا جوڑ دیکھا
ہے شکنجے میں یہ مجموعہ پریشانیوں کا
موجیں دریا میں جو اٹھتی ہوئی دیکھیں سمجھا
یہ بھی مجمع ہے تیرے چاک گریبانوں کا
تیر پہ تیر لگاتا ہے کماندار فلک
خانہ دل میں ہجوم آج ہے مہمانوں کا
بسملوں کی دم رخصت ہے مدارات ضرور
یار بیڑا تیری تلوار میں ہو پانو ں کا
میرے اعضا نے پھنسایا ہے مجھے عصیاں میں
شکوہ آنکھوں کا کرو یا میں گلہ کانوں کا
قدر داں چاہئے دیوان ہمارا ہے امیر
منتخب مصحفی و میر کے دیوانوں کا
امیر مینائی