ٹیگ کے محفوظات: کیمیا

سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

زِندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی
دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی
ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی
کتنی مردم شناس ہے دُنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی
کون اُٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی
بے غرض کون دل گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی
ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دُعا ہمیں سے ہوئی
سعیِٔ تجدیدِ دوستی ناصر
آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی
ناصر کاظمی

اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری

احمد فراز ۔ غزل نمبر 89
میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جا بجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوششِ دریدہ پر
اسی کے دوش پہ رکھی ہوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں، یہی سزا تھی مری
شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہرِ عشق میں کیا آخری صدا تھی مری؟
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاکِ پا تھی مری
ہر ایک شعر نہ تھا در خورِ قصیدۂ دوست
اور اس سے طبعِ رواں خوب آشنا تھی مری
میں اس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری
احمد فراز