ٹیگ کے محفوظات: کہوں

قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جُنوں

کون جانے کہاں ہے شہرِ سکوں
قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جُنوں
نورِ منزل مجھے نصیب کہاں
میں ابھی حلقہِ غبار میں ہوں
یہ ہے تاکید: سننے والوں کی
واقعہ خوشگوار ہو تو کہوں
کن اندھیروں میں کھو گئی ہے سحر
چاند تاروں پہ مار کر شب خوں
تم جسے نورِ صبح کہتے ہو
میں اسے گردِ شام بھی نہ کہوں
اب تو خونِ جگر بھی ختم ہوا
میں کہاں تک خلا میں رنگ بھروں
جی میں آتا ہے اے رہِ ظلمت
کہکشاں کو مروڑ کر رکھ دوں
شکیب جلالی

میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا

ہمیشہ سوچتا ہُوں اب کَہُوں گا
میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا
جو سب کچھ ہو کے بھی تم کہہ نہ پائے
وہ میں بے عہدہ و منصب کَہُوں گا
تمہارے دن ہیں تم جو چاہو کہہ لو
مرا وقت آئے گا میں تب کَہُوں گا
مُصِر ہیں وہ کہ جو دل میں ہے کہہ دُوں
قیامت ہو گی لیکن جب کَہُوں گا
یہ دعوے کفر کے اِک دوسرے پر
بھَلا میں اور اِسے مذہب کَہُوں گا
کوئی سُننے پہ راضی ہو تَو ضامنؔ
اَلِف سے لے کے یے تک سب کَہُوں گا
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
مر بھی جائے گی اگر دنیا تو خود کو ضامنؔ
جیسی یہ خود ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا
ضامن جعفری

ہاتھ مرے ہاتھوں میں دے دے جینے کا سامان کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کھول کوئی در لطف کا اپنے، اِن آنکھوں میں رنگ بھروں
ہاتھ مرے ہاتھوں میں دے دے جینے کا سامان کروں
لازم ہے اِک دورِ طرب کے بعد مجھے تو بھُول بھی جا
مَیں اک بار تجھے پھر چاہوں عہد نیا آغاز کروں
چاروں اور رہی اِک ظلمت جو سوچا سو دیکھا ہے
چاند کبھی تو اُبھرے گا یہ آس لگا کر بھی دیکھوں
اے کہ تلاشِ بہار میں تُو بھی غرق ہے، برگِ آوارہ
کاش مجھے بھی پر لگ جائیں مَیں بھی تیرے ساتھ اُڑوں
شہر میں ہر اک شخص تھا جیسے ایک یہی تلقین لیے
مَیں شبنم کو پتّھر جانوں مَیں پھُولوں کو خار کہوں
گلشن میں یہ کنجِ سخن بھی اُجڑا بن کہلاتا ہے
مَیں جِس پھلواری سے ماجدؔ پہروں بیٹھا پھُول چُنوں
ماجد صدیقی

کیا کہوں اب میں’ کہوں یا نہ کہوں‘ سے پہلے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 127
سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے
کیا کہوں اب میں’ کہوں یا نہ کہوں‘ سے پہلے
اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح
جس کو نسبت تھی مرے حال زبوں سے پہلے
کوئی اسم ایسا کہ اس شخص کا جادو اترے
کوئی اعجاز مگر اس کے فسوں سے پہلے
بے طلب اس کی عنایت ہے تو حیران ہوں میں
ہاتھ مانوس نہ تھے شاخ نگوں سے پہلے
حرف دل آیا کہ آیا میرے ہونٹوں پہ اب
بڑھ گئی بات بہت سوز دروں سے پہلے
تشنگی نے نگہ یار کی شرمندہ کیا
دل کی اوقات نہ تھی قطرۂ خوں سے پہلے
خوش ہو آشوب محبت سے کہ زندہ ہو فراز
ورنہ کچھ بھی تو نہیں دل کے سکوں سے پہلے
احمد فراز

سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 199
بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی
رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے
تکلّف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی
خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی
نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی
نہ اتنا بُرّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بیتابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی
مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی
مرے دل میں ہے غالب شوقِ وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی
مرزا اسد اللہ خان غالب

نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا

دیوان دوم غزل 765
سمندر کا میں کیوں احساں سہوں گا
نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا
نہ تو آوے نہ جاوے بے قراری
یوں ہی اک دن سنا میں مر رہوں گا
ترے غم کے ہیں خواہاں سب نہ کھا غم
کمی کیا ہو گی جو اک میں نہ ہوں گا
نہ وہ آوے نہ جاوے بے قراری
کسو دن میر یوں ہی مررہوں گا
اگر جیتا رہا میں میر اے یار
تو شب کو موبمو قصہ کہوں گا
میر تقی میر

چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 14
کوئی نہیں مجھے جو بتائے میں کیا کروں
چلتا رہوں سڑک پہ ابھی یا کہیں رکوں
ممکن نہیں ہے اس سے کوئی بات ہو سکے
ممکن نہیں ہے اس کا کہیں نام لے سکوں
اس شہرناشناس میں کوئی نہیں مرا
دستک کہاں پہ دوں میں کسے جا کے کچھ کہوں
کب تک امیدرکھوں کہ اترے گا وہ ابھی
کب تک میں آسماں کی طرف دیکھتا رہوں
آنچل شبِ فراق کا اب کاٹنے لگا
میرا خیال ہے یہ ستارے میں نوچ لوں
بارش ہوا کے دوش پہ کمروں تک آگئی
گملے برآمدے کے چھپا کر کہاں رکھوں
منصور مشورہ یہی بہتر ہے دھوپ کا
اب شامِ انتظار اٹھا کرمیں پھینک دوں
منصور آفاق