ٹیگ کے محفوظات: کھٹکتے

اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے

دیوان سوم غزل 1278
دو دیدئہ تر اپنے جو یار کو ہیں تکتے
اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے
حرکت دلوں کی اپنے مذبوحی سی رہے ہے
اب وہ نہیں کہ دھڑ دھڑ رہتے ہیں دل دھڑکتے
پلکوں کی اس کی جنبش جاتی نہیں نظر سے
کانٹے سے اپنے دل میں رہتے ہیں کچھ کھٹکتے
ہوتا تھا گاہ گاہے محسوس درد آگے
اب دل جگر ہمارے پھوڑے سے ہیں لپکتے
پڑتی ہیں ایدھر اودھر وے سرخ آنکھیں ایسی
دو ترک مست جیسے ہوں راہ میں بہکتے
شعلوں کے ڈانک گویا لعلوں تلے دھرے ہیں
چہروں کے رنگ ہم نے دیکھے ہیں کیا جھمکتے
یاں بات راہ کی تو سنتا نہیں ہے کوئی
جاتے ہیں ہم جرس سے اس قافلے میں بکتے
جاگہ سے لے گئے ہیں نازاں جب آگئے ہیں
نوباوگان خوبی جوں شاخ گل لچکتے
اس حسن سے کہاں ہے غلطانی موتیوں کی
جس خوبصورتی سے میر اشک ہیں ڈھلکتے
میر تقی میر

ہر دم جگروں میں کچھ کانٹے سے کھٹکتے ہیں

دیوان اول غزل 311
پلکوں سے ترے شائق ہم سر جو پٹکتے ہیں
ہر دم جگروں میں کچھ کانٹے سے کھٹکتے ہیں
میں پھاڑ گریباں کو درویش ہوا آخر
وے ہاتھ سے دامن کو اب تک بھی جھٹکتے ہیں
یاد آوے ہے جب شب کو وہ چہرئہ مہتابی
آنسو مری پلکوں سے تارے سے چھٹکتے ہیں
کی راہبری میری صحراے محبت میں
یاں حضرت خضر آپھی مدت سے بھٹکتے ہیں
جاتے نہ کوئی دیکھا اس تیغ کے منھ اوپر
واں میان سے وہ لے ہے یاں یار سٹکتے ہیں
کیا تم کو اچنبھا ہے سختی کا محبت میں
دشوار ہی ہوتا ہے دل جن کے اٹکتے ہیں
تو طرئہ جاناں سے چاہے ہے ابھی مقصد
برسوں سے پڑے ہم تو اے میر لٹکتے ہیں
میر تقی میر