ٹیگ کے محفوظات: کواڑ

توڑو گگن کہ چاندنی ٹپکے دراڑ سے

تھامے کرن کو، کُود کے شب کے پہاڑ سے
توڑو گگن کہ چاندنی ٹپکے دراڑ سے
پھر تیرگی زمین پہ جھانکے پئے شکار
چندا کی اوٹ سے کبھی تاروں کی باڑ سے
اوڑھیں زمیں نے شب کے اندھیروں کی چادریں
ویراں ہوئیں فضائیں تو رستے اُجاڑ سے
کب روشنی ہے روشنی گر تیرگی نہ ہو
ہر نظم کا وجود ہے قائم بگاڑ سے
ظلمت کدے میں شب کے سحر آ کے مڑ گئی
چپکی ہوئی ہیں دستکیں اب تک کواڑ سے
وصلِ سحر بلائے گا یاؔور کبھی مجھے
جھانکے گا آفتاب شعاعوں کی آڑ سے
یاور ماجد

صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 15
یہی کہ سہم اٹھاؤ اجاڑ عمروں کا
صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا
تجھے پتہ تو چلے اصل واقعہ کیا ہے
غبار چہرۂ ہستی سے جھاڑ عمروں کا
پڑی ہیں بیڑیاں پاؤں میں اپنے ہونے کی
رواں ہوں پشت پہ لا دے پہاڑ عمروں کا
سفر بھی ہونے نہ ہونے کا اک تسلسل ہے
یہاں لگا، وہاں خیمہ اکھاڑ عمروں کا
یہاں سے دیکھ تماشا ہجوم رفتہ کا
بدن سے جامۂ نازیب پھاڑ عمروں کا
نہ ہو یہ وقت پیامِ بقا کے آنے کا!
لہذا کھول کے رکھو کواڑ عمروں کا
آفتاب اقبال شمیم

کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 527
چیزوں سے گرد جھاڑتے، لان کی باڑ کاٹتے
کیسے نکلتے زخم سے، کیسے پہاڑ کاٹتے
پچھلی گلی کی نیند سے آتے طبیب خواب کے
ہجر کی فصد کھولتے، درد کی ناڑ کاٹتے
چلتیں گھڑی کی سوئیاں ، اپنے بدلتے روز و شب
دن کا ملال ٹوٹتا، شب کا بگاڑ کاٹتے
قیدی نظام زر کے ہیں دست بریدہ لوگ ہم
دانتوں سے کیسے لوہے کے بھاری کواڑ کاٹتے
قوسِ قزح بچھا کے ہم کنجِ صبا میں بیٹھ کر
دیدئہ صادقین سے تھور کا جھاڑ کاٹتے
یاد کے راٹ وائلر، ہوتے اگر نہ آس پاس
بھیڑے دشتِ درد کے جسم کو پھاڑ کاٹتے
حسنِ طلب کے شہر میں گنتے بدن کے لوتھڑے
تیغِ سکوتِ مرگ سے من کا کراڑ کاٹتے
بیج نئے وصال کے بوتے کہ ہم سیہ نصیب
کشتِ خرابِ عمر سے پچھلا کباڑ کاٹتے
لاتے کہیں سے ہم کوئی ابرِ حیات کھنچ کر
شاخِ خزاں تراشتے، دکھ کا اجاڑ کاٹتے
آتی تری ہوا اگر اپنی گلی کے موڑ تک
چیت کے صحنِ سبز میں عمر کا ہاڑ کاٹتے؟
اچھے دنوں کو سوچتے دونوں کہیں پہ بیٹھ کر
ہاتھوں کو تھام تھام کے لمبی دیہاڑ کاٹتے
منصور آفاق

کوئی طلسمی باڑ لگا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 76
چاروں اور پہاڑ لگا
کوئی طلسمی باڑ لگا
غم کا کاٹھ کباڑ لگا
سارا شہر اجاڑ لگا
دنیا ایک مثلث ہے
دل میں تین کواڑ لگا
ہر اک عشق کی بستی کا
اشک شمار کراڑ لگا
چل منصور محبت کے
دل میں ایک دراڑ لگا
منصور آفاق