ٹیگ کے محفوظات: کنارو!

ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ

سرِ رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو، تم ہی آجاؤ
ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ
کہیں ایسا نہ ہو دم توڑ دیں ، حسرت سے دیوانے
قفس تک ان سے ملنے کو بہارو! تم ہی آجاؤ
بھروسا کیا سفینے کا، کئی طوفان حائل ہیں
ہماری ناخدائی کو کنارو! تم ہی آجاؤ
ابھی تک وہ نہیں آئے یقینا رات باقی ہے
ہماری غم گساری کو ستارو! تم ہی آجاؤ
شکیبؔ غم زدہ کو درد سے ہے اب کہاں فرصت
اگر کچھ وقت مل جائے تو پیارو! تم ہی آجاؤ
شکیب جلالی

کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو

رنگینیِ حیات کے مارو جواب دو
کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو
کیا مل گیا غریب کی دنیا اُجاڑ کے!
بولو تو اے لرزتے شرارو، جواب دو
کشتی ڈُبو ہی سکتا ہوں، طوفاں نہیں تو کیا
ہو کس لیے اُداس کنارو، جواب دو
بربادیاں سُکون بہ داماں ہیں یا نہیں
کچھ تو خزاں رسیدہ بہارو، جواب دو
کیا تلخیِ حیات سے دل کش ہے تلخ مے؟
اے تلخیِ شراب کے مارو، جواب دو
کیا میری آہ تم سے اُلجھتی ہے راہ میں ؟
سہمے ہوئے سے چاند ستارو، جواب دو
تھیں کس کے دم قدم سے یہاں کی وہ رونقیں
میری اُداس راہ گزارو جواب دو
کیا عزمِ سُوے صحنِ گلستاں ہے آج یا؟
آئی ہو میرے پاس بہارو، جواب دو
عزمِ شکیبؔ زار سے ضد تو نہیں تمھیں
یہ اہتمام کس لیے دھارو، جواب دو
شکیب جلالی

اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو

مریضِ غم کے سہارو! کوئی تو بات کرو
اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو
کہاں ہے، ڈوب چکا اب تو ڈوبنے والا
شکستہ دل سے کنارو! کوئی تو بات کرو
مرے نصیب کو بربادیوں سے نسبت ہے
لُٹی ہوئی سی بہارو! کوئی تو بات کرو
کہاں گیا وہ تمھارا بلندیوں کا جنون
بجھے بجھے سے شرارو! کوئی تو بات کرو
اسی طرح سے عجب کیا جو کچھ سُکون ملے
’’غمِ فراق کے مارو! کوئی تو بات کرو،،
تمھارا غم بھی مٹاتی ہیں مستیاں کہ نہیں
شرابِ ناب کے مارو! کوئی تو بات کرو
تمھاری خاک اُڑاتا نہیں شکیبؔ تو کیا
اُداس راہ گزارو! کوئی تو بات کرو
شکیب جلالی

اے ہستی کے خام سہارو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 18
کچھ تو ڈوبے دل کو ابھارو
اے ہستی کے خام سہارو
دنیا دارو! اتنی نفرت!
اتنی نفرت! دنیا دارو!
میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو
کوئی بات کرو غم خوارو!
موجیں اور پابندیٔ دریا
ہٹ جاؤ رستے سے کنارو!
کوئی جھٹک دے دامن باقیؔ
اتنے بھی پاؤں نہ پسارو!
باقی صدیقی