ٹیگ کے محفوظات: کر

پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

دیوان اول غزل 531
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے
پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے
آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گذرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے
چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے
میر تقی میر

اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے

دیوان اول غزل 508
برقعے کو اٹھا چہرے سے وہ بت اگر آوے
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آوے
اے ناقۂ لیلیٰ دو قدم راہ غلط کر
مجنون زخود رفتہ کبھو راہ پر آوے
ٹک بعد مرے میرے طرف داروں کنے تو
کوئی بھیجیو ظالم کہ تسلی تو کر آوے
کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو
آشوب فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے
ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی
جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے
مت ممتحن باغ ہو اے غیرت گلزار
گل کیا کہ جسے آگے ترے بات کر آوے
کھلنے میں ترے منھ کے کلی پھاڑے گریباں
ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گل برگ تر آوے
ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں
اے جان بلب آمدہ رہ تا خبر آوے
کہتے ہیں ترے کوچے سے میر آنے کہے ہے
جب جانیے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے
ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے
شاید کہ نظیرؔی کے بھی عہدے سے بر آوے
میر تقی میر

آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو

دیوان اول غزل 384
گرچہ کب دیکھتے ہو پر دیکھو
آرزو ہے کہ تم ادھر دیکھو
عشق کیا کیا ہمیں دکھاتا ہے
آہ تم بھی تو اک نظر دیکھو
یوں عرق جلوہ گر ہے اس منھ پر
جس طرح اوس پھول پر دیکھو
ہر خراش جبیں جراحت ہے
ناخن شوق کا ہنر دیکھو
تھی ہمیں آرزو لب خنداں
سو عوض اس کے چشم تر دیکھو
رنگ رفتہ بھی دل کو کھینچے ہے
ایک شب اور یاں سحر دیکھو
دل ہوا ہے طرف محبت کا
خون کے قطرے کا جگر دیکھو
پہنچے ہیں ہم قریب مرنے کے
یعنی جاتے ہیں دور اگر دیکھو
لطف مجھ میں بھی ہیں ہزاروں میر
دیدنی ہوں جو سوچ کر دیکھو
میر تقی میر

پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال

دیوان اول غزل 266
کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال
مشکل ہے مٹ گئے ہوئے نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں ان کا نہ کر خیال
مو کو عبث ہے تاب کلی یوں ہی تنگ ہے
اس کا دہن ہے وہم و گمان و کمر خیال
رخسار پر ہمارے ڈھلکنے کو اشک کے
دیکھے ہے جو کوئی سو کرے ہے گہر خیال
کس کو دماغ شعر و سخن ضعف میں کہ میر
اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیشتر خیال
میر تقی میر

دوری رہ ہے راہ بر نزدیک

دیوان اول غزل 258
شوق ہے تو ہے اس کا گھر نزدیک
دوری رہ ہے راہ بر نزدیک
آہ کرنے میں دم کو سادھے رہ
کہتے ہیں دل سے ہے جگر نزدیک
دور والوں کو بھی نہ پہنچے ہم
یہی نہ تم سے ہیں مگر نزدیک
ڈوبیں دریا و کوہ و شہر و دشت
تجھ سے سب کچھ ہے چشم تر نزدیک
حرف دوری ہے گرچہ انشا لیک
دیجو خط جا کے نامہ بر نزدیک
دور اب بیٹھتے ہیں مجلس میں
ہم جو تم سے تھے بیشتر نزدیک
خبر آتی ہے سو بھی دور سے یاں
آئو یک بار بے خبر نزدیک
توشۂ آخرت کا فکر رہے
جی سے جانے کا ہے سفر نزدیک
دور پھرنے کا ہم سے وقت گیا
پوچھ کچھ حال بیٹھ کر نزدیک
مر بھی رہ میر شب بہت رویا
ہے مری جان اب سحر نزدیک
میر تقی میر

جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار

دیوان اول غزل 212
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر
کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو
چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس درپہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہوکر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہربار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خربار
جہاں میر رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
میر تقی میر

پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملاکر

دیوان اول غزل 205
غیروں سے وے اشارے ہم سے چھپا چھپاکر
پھر دیکھنا ادھر کو آنکھیں ملا ملاکر
ہر گام سد رہ تھی بتخانے کی محبت
کعبے تلک تو پہنچے لیکن خدا خدا کر
نخچیرگہ میں تجھ سے جو نیم کشتہ چھوٹا
حسرت نے اس کو آخر مارا لٹا لٹاکر
اک لطف کی نگہ بھی ہم نے نہ چاہی اس سے
رکھا ہمیں تو ان نے آنکھیں دکھا دکھاکر
ناصح مرے جنوں سے آگہ نہ تھا کہ ناحق
گودڑ کیا گریباں سارا سلا سلاکر
اک رنگ پاں ہی اس کا دل خوں کن جہاں ہے
پھبتا ہے اس کو کرنا باتیں چبا چباکر
جوں شمع صبح گاہی یک بار بجھ گئے ہم
اس شعلہ خو نے ہم کو مارا جلا جلاکر
اس حرف ناشنو سے صحبت بگڑ ہی جا ہے
ہر چند لاتے ہیں ہم باتیں بنا بناکر
میں منع میر تجھ کو کرتا نہ تھا ہمیشہ
کھوئی نہ جان تونے دل کو لگا لگاکر
میر تقی میر

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

دیوان اول غزل 183
پلکوں پہ تھے پارئہ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
میر تقی میر

موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

دیوان اول غزل 46
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا
جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جاکے سو مر کر نکلا
دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا
اشک تر قطرئہ خوں لخت جگر پارئہ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہ کر نکلا
کنج کاوی جو کی سینے کی غم ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میر
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
میر تقی میر

زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 107
وہ شہرِ بے انا کو کثرتِ اشیا سے بھر دیں گے
زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے
کبھی تعبیر سے انکی کھلا تھا باغ دنیا کا
اگر یہ خواب سچے ہیں تو دوبارہ ثمر دیں گے
ترا پیغام برحق ہے، مگر تعمیل مشکل ہے
زیادہ سے زیادہ ہم تجھے دادِ ہنر دیں گے
کرشمے دیکھتے جاؤ خداوندانِ مغرب کے
کہ وہ انسان کو آخر میں نا انسان کر دیں گے
شکوہِ سبزِ بے موسم صلہ ہے سخت جانی کا
تمہیں اس کی گواہی برف زاروں کے شجر دیں گے
آفتاب اقبال شمیم

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 99
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا
بس ایک اشک پسِ چشم تم چھپائے رکھو
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
وگرنہ تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا افریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم

یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 34
روز کی یکساں مسافت پر مکرر جائیے
یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
یہ زمانے بھر کی باتیں ختم ہوتی ہیں کہاں
رات کافی ہو چکی اب جائیے گھر جائیے
بیٹھئے سر تان کر گاہے صلیبوں کے تلے
اور گاہے آپ اپنی چاپ سے ڈر جائیے
تب ہو آغاز سفر جب آنکھ لو دینے لگے
اس شبِ تاریک میں ہو کر منور جائیے
آنکھ کو حسرت کہ بہرِ دید سو عمریں ملیں
اور دل چاہے کہ اُس بے مہر پر مر جائیے
ایک ان سلجھی پہیلی ہے جسے دنیا کہیں
آئیے اوسان لے کر اور ششدر جائیے
نا امیدی میں بھی وابستہ رہیں اُمید سے
ہو سکے تو اُسکی خاطر کچھ نہ کچھ کر جائیے
آفتاب اقبال شمیم

دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 29
حدوں میں رہ کر، حدوں سے باہر، بہے سمندر
دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
زمیں کی آغوشِ پُرسکوں میں سکوں نہ پائے
ہوا کی راہوں میں ابر بن کر، بہے سمندر
یہ جان و جُنبش ثمر ہیں پانی کی ٹہنیوں کے
بدل کے شکلِ نوید گھر گھر، بہے سمندر
یہ سب کے سب ہیں پڑاؤ اسکی روانیوں کے
پہاڑ یا برف یا صنوبر، بہے سمندر
ہری کویتا کے شبد مٹی پہ لکھتا جائے
زبانِ اسرار کا سخن ور، بہے سمندر
یہ وجہ فعلِ وجود اصل وجود بھی ہے
یہی ہے دریا یہی شناور، بہے سمندر
اسی حوالے سے آنکھ پر منکشف ہوئے ہیں
زمین، افلاک اور خاور، بہے سمندر
رُکے تو ایسے بسیط و ساکت، ہو موت جیسے
بنامِ ہستی بہے برابر، بہے سمندر
فنا کرے تو بقا کی گنجائشیں بھی رکھے
ہو جیسے انسان کا مقدر، بہے سمندر
آفتاب اقبال شمیم

ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 18
کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خُو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچہء دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
منٹگمری جیل
فیض احمد فیض

تجھ پر تری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 30
اک عمر دل کی گھات سے تجھ پر نگاہ کی
تجھ پر تری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی
روحوں میں جلتی آگ، خیالوں میں کھلتے پھول
ساری صداقتیں کسی کافر نگاہ کی
جب بھی غمِ زمانہ سے آنکھیں ہوئیں دوچار
منہ پھیر کر تبسمِ دل پر نگاہ کی
باگیں کھنچیں، مسافتیں کڑکیں، فرس رکے
ماضی کی رتھ سے کس نے پلٹ کر نگاہ کی
دونوں کا ربط ہے تری موجِ خرام سے
لغزش خیال کی ہو کہ ٹھوکر نگاہ کی
مجید امجد

جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 310
ندی سے پھول نہ گنجِ گہر نکلتا ہے
جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں سر نکلتا ہے
لہو میں غرق ہمارے بدن کو سہل نہ جان
یہ آفتاب ہے اور ڈوب کر نکلتا ہے
جراحتیں مجھے کارِ رفو سکھاتی ہیں
مرا عدو ہی مرا چارہ گر نکلتا ہے
زمین پھر بھی کشادہ ہے بال و پر کے لیے
کہ آسمان تو حدِّ نظر نکلتا ہے
ذرا جو بند ہوں آنکھیں تو شب کے زنداں میں
عجیب سلسلۂ بام و در نکلتا ہے
عرفان صدیقی

ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 240
خلاء میں کیا نظر آتے، زمین پر نہیں آئے
ستارہ جو کو فرشتے کہیں نظر نہیں آئے
نشاں نہ تھا کوئی ڈوبی ہوئی زمینوں کا
سو ہم جہاز پہ اُڑتے رہے اُتر نہیں آئے
جہان نو تھا کہ مقتل ہمیں نہیں معلوم
جو اس گلی سے گئے تھے زیادہ تر نہیں آئے
اُداس شام اکیلی کھڑی ہے چوکھٹ پر
بہت سے صبح کے نکلے ہوئے بھی گھر نہیں آئے
یہ فصل گل جو بہت مہربان ہے اس بار
عجب نہیں ہے کہ جائے تو لوٹ کر نہیں آئے
عرفان صدیقی

اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 221
جسم و جاں کی آگ سے منظر بہ منظر روشنی
اس کا پیکر روشنی، میرا مقدّر روشنی
میں نے رات اک خواب دیکھا اور روشن ہو گیا
دیکھتا کیا ہوں کہ ہے میرے برابر روشنی
اور اے روشن قبا تجھ سے ہمیں کیا چاہیے
ایک دامن بھر ہوا اور اک دیا بھر روشنی
میں کوئی جگنو نہ تارا، میں کوئی سورج نہ چاند
اور تو دیکھے تو ہے مٹی کے اندر روشنی
اکثر اکثر اس کا چہرہ دھیان میں آتا بھی ہے
جیسے گم ہوجائے جنگل میں چمک کر روشنی
میرے مولا، ہجر کی تاریک راتوں کے طفیل
زندگی بھر چاہتیں اور زندگی بھر روشنی
عرفان صدیقی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 217
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیئے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمہارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی
جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی
ہز اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی
زرد پتوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر‘ یا اخی
عرفان صدیقی

شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 194
خوابِ آسودگیِ بال و پر آنے کا نہیں
شام آنکھوں سے یہ کہتی ہے گھر آنے کا نہیں
دل کے آئینے سے رخصت ہوا زنگارِ ملال
اس میں اب کوئی بھی چہرا نظر آنے کا نہیں
اور کیا چاہیے پیروں سے گریزاں ہے زمیں
آسمانوں سے تو اذنِ سفر آنے کا نہیں
فیصلہ کر‘ کم و بیشِ تہہِ دریا کی نہ سوچ
مسئلہ ڈوبنے کا ہے ابھر آنے کا نہیں
کل اسی موج میں اپنا تھا تو بہہ جانا تھا
جانِ من اب کوئی سیلاب اِدھر آنے کا نہیں
جس کو ہونا ہے وہ فریاد میں شامل ہوجائے
بے نوا شہر میں بارِ دگر آنے کا نہیں
کوئے قاتل کی روایت ہی بدل دی میں نے
ورنہ دستور یہاں لوٹ کر آنے کا نہیں
عرفان صدیقی

میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 79
اک ذرا خم ہو کے میں پیشِ ستم گر بچ گیا
میری پگڑی گر گئی لیکن مرا سر بچ گیا
زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں
کس کھنڈر کو جاکے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا
پیاس کے صحرا میں بچوں پر جو کچھ بیتی نہ پوچھ
ہاں خدا کا شکر‘ بازوئے برادر بچ گیا
سچ تو یہ ہے دوستو‘ بیکار ہیں سارے حصار!
لوگ گھر میں لٹ گئے‘ میں گھر کے باہر بچ گیا
چاہیے کوئی نہ کوئی راستہ سیلاب کو
سرپھری دیوار آخر بہ گئی‘ در بچ گیا
زندگی کا مول وہ بھی اس سے کم کیا مانگتے
میں بھی اپنے قاتلوں کو جان دے کر بچ گیا
عرفان صدیقی

یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 36
خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل پر ہے کوئی نقش دگر پانی کا
کوئی مشکیزہ سر نیزہ علم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا در شبیر پہ سر پانی کا
تیری کھیتی لب دریا ہے تو مغروز نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
عرفان صدیقی

تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 29
نقشِ ظفر تھا لوحِ ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اُس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہوُ روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمیں
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدّر لکھا ہوا
پانی پہ کس کے دستِ بریدہ کی مہر ہے
کس کے لیے ہے چشمۂ کوثر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منوّر لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اَوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے شعرِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوترابؑ کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
فہرستِ چاکراں میں سلاطیں کے ساتھ ساتھ
میرا بھی نام ہے سرِ دفتر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوال ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبرؐ لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ خداساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
MERGED نقشِ ظفر تھا لوح ازل پر لکھا ہوا
تلوار کاٹ سکتی تھی کیوں کر لکھا ہوا
صحرا کو شاد کام کیا اس کی موج نے
تھا سرنوشت میں جو سمندر لکھا ہوا
تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے
دُنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا
مجرائیوں کے قدموں سے لپٹی ہوئی زمین
پیشانیوں پہ بختِ سکندر لکھا ہوا
رستہ بدل کے معرکۂ صبر و جور میں
کس نے بدل دیا ہے مقدر لکھا ہوا
ہے خاک پر یہ کون ستارہ بدن شہید
جیسے ورق پہ حرفِ منور لکھا ہوا
نیزے سے ہے بلند صدائے کلامِ حق
کیا اوج پر ہے مصحفِ اطہر لکھا ہوا
روشن ہے ایک چہرہ بیاضِ خیال پر
لو دے رہا ہے بیتِ ثناگر لکھا ہوا
سرمہ ہے جب سے خاک درِ بوتراب کی
آنکھوں میں ہے قبالۂ منظر لکھا ہوا
اور اس کے آگے خانۂ احوالِ ذات میں
ہے مدح خوانِ آلِ پیمبر لکھا ہوا
سب نام دستِ ظلم‘ تری دسترس میں ہیں
لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا
میں اور سیلِ گریہ‘ خدا ساز بات ہے
قسمت میں تھا خزینۂ گوہر لکھا ہوا
عرفان صدیقی

کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 598
کاسہ ء اجر کو امکان سے بھر دیتا ہے
کوئی تو ہے جو ریاضت کا ثمر دیتا ہے
خیر امکانِ تباہی سے تو انکار نہیں
عشق کی موج ہے آباد بھی کر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ یہ دکھ قابلِ برداشت نہیں
وہ جو تکلیف میں پتھر کا جگر دیتا ہے
وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا
وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے
میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا
ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے
اس سے کہنا کہ مجھے روشنی ای میل کرے
اپنے جلووں سے جو مہتاب کو بھر دیتا ہے
عمر سوجاتی ہے ساحل کی طلب میں منصور
کیا وہ قطرے میں سمندر کا سفر دیتا ہے
منصور آفاق

میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 429
مل جاؤ تھوڑی دیر تو آ کر کسی جگہ
میں جا رہا ہوں شہر سے باہر کسی جگہ
میں روزنامچہ ہوں تری صبح و شام کا
مجھ کو چھپا دے شیلف کے اندر کسی جگہ
جادو گری حواس کی پھیلی ہوئی ہے بس
ہوتا نہیں ہے کوئی بھی منظر کسی جگہ
کچھ دن گزارتا ہوں پرندوں کے آس پاس
جنگل میں چھت بناتا ہوں جا کر کسی جگہ
منصور اس گلی میں تو آتی نہیں ہے دھوپ
گھر ڈھونڈ کوئی مین سڑک پر کسی جگہ
منصور آفاق

آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 428
اور اب تو میرے چہرے سے ابھر آتا ہے وہ
آئینہ میں دیکھتا ہوں اور نظر آتا ہے وہ
حالِ دل کہنے کو بارش کی ضرورت ہے مجھے
اور میرے گھر ہوا کے دوش پر آتا ہے وہ
رات بھر دل سے کوئی آواز آتی ہے مجھے
جسم کی دیوار سے کیسے گزر آتا ہے وہ
وقت کا احساس کھو جاتا تھا میری بزم میں
اپنے بازو پر گھڑی اب باندھ کر آتا ہے وہ
میں ہوا کی گفتگو لکھتا ہوں برگِ شام پر
جو کسی کو بھی نہیں آتا ہنر آتا ہے وہ
سر بریدوں کو تنک کر رات سورج نے کہا
اور جب شانوں پہ رکھ کر اپنا سر آتا ہے وہ
منصور آفاق

ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 410
طویل و تیرہ سہی شب مگر تسلی رکھ
ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر تسلی رکھ
اسے گزرنا انہی پتھروں سے ہے آخر
اومیری شوق بھری رہگزر تسلی رکھ
ابھی سے صبحِ جدائی کا خوف کیا کرنا
ہے مہتاب ابھی بام پر تسلی رکھ
کسی کا ساتھ گھڑی دو گھڑی بھی کافی ہے
او زندگی کی رہِ مختصر تسلی رکھ
نہیں نکلتی ترے منظروں سے بینائی
یہیں کہیں ہے ، گرفتِ نظر تسلی رکھ
شکست عشق میں ہوتی نہیں کبھی منصور
یہ ہار ، ہار نہیں ، ہار کر تسلی رکھ
منصور آفاق

پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 336
پھر وہی بھول کر رہا ہوں میں
پھر کہیں اور مر رہا ہوں میں
جانتا ہوں منافقت کے گُر
شہر میں معتبر رہا ہوں میں
رابطے سانپ بنتے جاتے تھے
رخنے مٹی سے بھر رہا ہوں میں
رات کچھ اور انتظار مرا
آسماں پر ابھر رہا ہوں میں
ایک اندھا کنواں ہے چاروں اور
زینہ زینہ اتر رہا ہوں میں
آخری بس بھی جانے والی ہے
اور تاخیر کر رہا ہوں میں
ساتھ چھوڑا تھا جس جگہ تُو نے
بس اسی موڑ پر رہا ہوں میں
جانتا ہے تُو میری وحشت بھی
تیرے زیرِ اثر رہا ہوں میں
تتلیاں ہیں مرے تعاقب میں
کیسا گرمِ سفر رہا ہوں میں
کچھ بدلنے کو ہے کہیں مجھ میں
خود سے منصور ڈر رہا ہوں میں
منصور آفاق

فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 277
میں رابطوں کے مکاں معتبر بناتا ہوں
فصیلیں توڑتا رہتا ہوں ، در بناتا ہوں
اڑان دیکھ مرے آہنی پرندوں کی
مسیح میں بھی ہوں لوہے کے پر بناتا ہوں
فروغ دیدئہ ابلاغ کے وسیلے سے
یہ اپنے آپ کو کیا باخبر بناتا ہوں
خدا کی شکل بنانی پڑے گی کاغذ پر
میں اپنا باطنی چہرہ اگر بناتا ہوں
سمٹ گئے ہیں جہاں تو مرے ہتھیلی میں
سو اب میں ذات کے اندر سفر بناتا ہوں
یونہی یہ لفظ چمکتے نہیں اندھیرے میں
جلا جلا کے کتابیں شرر بناتا ہوں
نکل پڑے نہ زمانہ مرے تعاقب میں
سو نقش پا بھی بہت سوچ کر بناتا ہوں
بس ایک صرف سناتا ہوں آیتِ منسوخ
فروغ خیر سے تہذیبِ شر بناتا ہوں
مرے دماغ میں بس عنکبوت رہتے ہیں
میں وہم بنتا ہوں خوابوں میں ڈر بناتا ہوں
اکھیڑ دیتا ہوں نقطے حروف کے منصور
میں قوسیں کاٹ کے تازہ ہنر بناتا ہوں
منصور آفاق

ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 209
قیام دار سہی آسمان پر آفاق
ملا ہوا ہے زمیں سے بھی یہ مگر آفاق
کسی نے آنا تھا لیکن بڑے مسائل تھے
بھرا ہوا تھا اجالوں سے رات بھر آفاق
کرن کی قوس افق در افق ملائے اسے
ہے آج اپنے ہی پہلو میں جلوہ گر آفاق
صراطِ سمت پہ رکھی ہوئی بصارت سے
تمام کیسے دکھائے مری نظر آفاق
بس اتنا ہے کہ بلندی پہ ہیں ذرا لیکن
ہمیشہ کھول کے رکھتا ہے اپنے در آفاق
نکالتا ہے مسلسل اسی کو دامن سے
ترے چراغ سے کرتا رہا سحر آفاق
یہ اور بات کہ سورج پہن کے رہتا ہے
مرے لیے میرا چھتنار سا شجر آفاق
ابھی بچھڑنے کی ساعت نہیں ڈیئر آفاق
ابھی تو پب میں پڑی ہے بہت بیئر آفاق
بس اس لیے کہ اسے دیکھنے کی عادت ہے
جلاتا روز ہے سورج کا لائیٹر آفاق
بدن نے آگ ابھی لمس کی نہیں پکڑی
ابھی کچھ اور کسی کا مساج کر آفاق
خدا سے کیوں نہ تعلق خراب میرا ہو
ہے ایک چھتری کی صورت اِدھر اُدھر آفاق
اُدھر پتہ ہی نہیں کچھ بہشت کا منصور
اِدھر زمیں کے نظاروں سے بے خبر آفاق
منصور آفاق

بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 116
موجوں کے آس پاس کوئی گھر بنا لیا
بچے نے اپنے خواب کا منظر بنا لیا
اپنی سیاہ بختی کا اتنا رکھا لحاظ
گوہر ملا تو اس کو بھی کنکر بنا لیا
بدلی رُتوں کو دیکھ کے اک سرخ سا نشاں
ہر فاختہ نے اپنے پروں پر بنا لیا
شفاف پانیوں کے اجالوں میں تیرا روپ
دیکھا تو میں نے آنکھ کو پتھر بنا لیا
ہر شام بامِ دل پہ فروزاں کیے چراغ
اپنا مزار اپنے ہی اندر بنا لیا
پیچھے جو چل دیا مرے سائے کی شکل میں
میں نے اُس ایک فرد کو لشکر بنا لیا
شاید ہر اک جبیں کا مقدر ہے بندگی
مسجد اگر گرائی تو مندر بنا لیا
کھینچی پلک پلک کے برش سے سیہ لکیر
اک دوپہر میں رات کا منظر بنا لیا
پھر عرصۂ دراز گزارا اسی کے بیچ
اک واہموں کا جال سا اکثر بنا لیا
بس ایک بازگشت سنی ہے تمام عمر
اپنا دماغ گنبدِ بے در بنا لیا
باہر نکل رہے ہیں ستم کی سرنگ سے
لوگوں نے اپنا راستہ مل کر بنا لیا
گم کربِ ذات میں کیا یوں کربِ کائنات
آنکھوں کے کینوس پہ سمندر بنا لیا
منصور جس کی خاک میں افلاک دفن ہیں
دل نے اسی دیار کو دلبر بنا لیا
منصور آفاق

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 111
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے
میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
منصور آفاق

تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 74
کرشمے تیری گرفتِ نظر کے دیکھوں گا
تجھے میں آنکھ کے دربند کر کے دیکھوں گا
پتہ کروں گا نہ ہونے میں کیسا ہونا ہے
مقامِ صفر پہ کچھ دن ٹھہر کے دیکھوں گا
نکل کے کمرے سے جاؤں گا صحن میں اپنے
مناظر اپنے شکستہ سے گھر کے دیکھوں گا
رکھا درخت کے بالکل ہے سامنے سورج
ابھی میں پھیلتے سائے اُدھر کے دیکھوں گا
جہاں جہاں ترے پہلو میں کھل اٹھا تھا بدن
میں بار بار وہیں سے گزر کے دیکھوں گا
سہار د ستِ دعانے تو لی ہے چھت لیکن
مگر فلک کی طرف روز ڈر کے دیکھوں گا
ہے ہمکلام بھی مائل بھی اور اکیلا بھی
سوہاتھ زانوئے جاناں پہ دھر کے دیکھوں گا
سناہے اسکے لبوں سے جھڑے مسیحائی
سومیں بھی یار کی چوکھٹ پہ مر کے دیکھوں گا
اے چشمِ یار کی تیرہ سواد کاجلی شب
تجھے میں آنکھ میں مہتاب بھر کے دیکھوں گا
بنا ہوا ہوں ازل سے زمین کا قیدی
میں سارے دائرے دا مِ سفر کے دیکھوں گا
ذرا سی اور ٹھہر جائے رات پہلو میں
سبھی چراغ بجھا کر سحر کے دیکھوں گا
ہوا وصال میں مہکے توچاندنی !تجھ سے
میں کھول کھول کے سائے شجر کے دیکھوں گا
مجھے یقیں ہے کہ تیرا سروپ ہے اسمیں
اب آئینہ بھی ہمیشہ سنور کے دیکھوں گا
تم اپنے خول سے باہر نکل کے آ ؤ تو
فرازِ عرش سے میں بھی اتر کے دیکھوں گا
مرے لبوں کو بھی تتلی کی نرمیاں چھو لیں
گلاب کی طرح میں بھی نکھر کے دیکھوں گا
خود اپنی آنکھ سے اپنی سویر کی کرنیں
کسی کے بامِ افق پر ابھر کے دیکھوں گا
یہ اور بات کہ موسم بدل نہیں سکتا
میں برگ برگ ہوا میں بکھر کے دیکھوں گا
ابھی لکھوں گا قصیدہ کسی کے چہرے کا
تماشا اپنے ہی حسنِ نظر کے دیکھوں گا
وہ گنگنائے گی اک دن مری غزل منصور
عجب وصال میں اپنے ہنر کے دیکھوں گا
منصور آفاق

وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 65
سید نصیر شاہ کا جو گھر تھا کیا ہوا
وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا
کہتا تھا جو خدا سے کہ اک جیساکر ہمیں
مشہور شہر میں وہ جو کافر تھا کیا ہوا
وہ جس بلند طرے سے ڈرتے تھے کجکلاہ
وہ جو غریب چلتا اکٹر کر تھا کیا ہوا
ہوتے مشاعرے تھے جو اکثر وہ کیا ہوئے
وہ شاعروں کا ایک جو لشکر تھا کیا ہوا
وہ شام کیا ہوئی جو سٹیشن کے پاس تھی
وہ شخص جو مجھے کبھی ازبر تھا کیا ہوا
وہ ہار مونیم جو بجاتا تھا ساری رات
وہ ایک گانے والا یہاں پر تھا کیا ہوا
برگد ہزاروں سال سے سایہ فگن جہاں
وہ چشمہ جو پہاڑ کے اوپر تھا کیا ہوا
جلتے جہاں تھے دیپ وہ میلے کہاں گئے
آتا یہاں جو پھولوں کا چیتر تھا کیا ہوا
مکھن جو کھایا کرتے تھے وہ مرغ کیا ہوئے
ہر صبح وہ جو بولتا تیتر تھا کیا ہوا
عاجز کے وہ لہکتے ہوئے گیت کیا ہوئے
تنویر کچھ بتا وہ جو مظہر تھا کیا ہوا
چشمہ بیراج کیا ہوا منصور کچھ کہو
جو دیکھنے میں ایک سمندر تھا کیا ہوا
منصور آفاق

اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 63
وہ ہے شکست مان کے پتھر پڑا ہوا
اک پہلوان رِنگ سے باہر پڑا ہوا
آگاہ بھلا ہو کیسے کہ کیا ہے فلک کے پار
وہ جو ہے کائنات کے اندرپڑا ہوا
ڈالی تھی ایک میں نے اچٹتی ہوئی نظر
میرے قریب تھا کوئی منظر پڑا ہوا
آرام کر رہا تھا ابھی تو یہ ریت پر
دریا کہاں گیا ہے برابر پڑا ہوا
یہ بادِ تند و تیز کی آغوشِ گرم میں
خراٹے لے رہا ہے سمندر پڑا ہوا
وہ بھی گلی میں پھرتی ہے بے چین دیر سے
میں بھی ہوں گھر میں بلب جلا کر پڑا ہوا
منصور آسمان سے لے کر پہاڑ تک
کیا کیا اٹھانا پڑتا ہے سر پر پڑا ہوا
منصور آفاق

ایک جیسا کر دے مولا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 40
روشنی سے بھر دے مولا
ایک جیسا کر دے مولا
بے سہاروں ، بے کسوں کو
زندگی بہتر دے مولا
اچھی روٹی ،اچھے کپڑے
سب کو اچھے گھر دے مولا
ہرطرف دوزخ ہیں شر کے
خیر کے منظر دے مولا
بچے جتنے بھی ہیں ان کو
علم کا زیور دے مولا
ارتکازِ زر کے آگے
ہمتِ بوزر دے مولا
اِس معاشرتی گھٹن کو
نغمہِ صرصر دے مولا
نام پر اپنے نبیؐ کے
کٹنے والا سر دے مولا
شکل اچھی دی ہے لیکن
خوبرو اندر دے مولا
بس مدنیے کی گلی میں
نیکیوں کا در دے مولا
میرے پاکستان کو بھی
کوئی چارہ گر دے مولا
جان لوں منصور کو میں
چشمِ دیدہ ور دے مولا
منصور آفاق

کام اپنا، نام اُس کا کر چلے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 42
مر چلے ہم مر کے اُس پر مر چلے
کام اپنا، نام اُس کا کر چلے
حشر میں اجلاس کس کا ہے کہ آج
لے کے سب اعمال کا دفتر چلے
خُونِ ناحق کر کے اِک بے جُرم کا
ہاتھ ناحق خُون میں تم بھر چلے
یہ ملی کس جُرم پر دم کو سزا؟
حُکم ہے دن بھر چلے شب بھر چلے
شیخ نے میخانے میں پی یا نہ پی
دخترِ رز کو تو رُسوا کر چلے
رہنے کیا دنیا میں آئے تھے امیر
سیر کر لی اور اپنے گھر چلے
امیر مینائی

جب تک کہ نظر نظر رہی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 257
ہر بات سے باخبر رہی ہے
جب تک کہ نظر نظر رہی ہے
مت دیکھ کہ ہے کہاں زمانہ
یہ سوچ کہ کیا گزر رہی ہے
یا بات میں بھی اثر نہیں تھا
یا کام نظر بھی کر رہی ہے
دیکھو تو ہے زخم زخم سینہ
کہنے کو کلی نکھر رہی ہے
حالات کا انتظار باقیؔ
وہ زلف ابھی سنور رہی ہے
باقی صدیقی

اﷲ رے حادثے سفر کے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 229
منزل کے رہے نہ رہگزر کے
اﷲ رے حادثے سفر کے
وعدہ نہ دلاؤ یاد ان کا
نادم ہیں ہم اعتبار کر کے
خاموش ہیں یوں اسیر جیسے
جھگڑے تھے تمام بال و پر کے
کیا کم ہے یہ سادگی ہماری
ہم آ گئے کام رہبر کے
یوں موت کے منتظر ہیں باقیؔ
مل جائے گا چین جیسے مر کے
باقی صدیقی

چپ نہ ہوتے تھے مگر چپ ہو گئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 194
تار دل کے ٹوٹ کر چپ ہو گئے
چپ نہ ہوتے تھے مگر چپ ہو گئے
سوچ کر آئے تھے ہم کیا کیا مگر
رنگ محفل دیکھ کر چپ ہو گئے
کیا کبھی اس کا بھی آیا ہے خیال
کیوں ترے شوریدہ سر چپ ہو گئے
کہہ رہے تھے جانے کیا لوگوں سے وہ
مجھ کو آتا دیکھ کر چپ ہو گئے
میں نہیں گویا کسی کا ترجمان
ہمنوا یوں وقت پر چپ ہو گئے
اک اداسی بزم پر چھا جائے گی
ہم بھی اے باقیؔ اگر چپ ہو گئے
باقی صدیقی

لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 183
ہم کہیں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
جلوہ، جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئنے سے باہر آئے
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
شعر کا روپ بدل کر باقیؔ
دل کے کچھ زخم زباں پر آئے
باقی صدیقی

بام افلاک سے اتر ساقی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 163
پھول بکھرے ہیں خاک پر ساقی
بام افلاک سے اتر ساقی
میکدہ اور مہیب سناٹا
بے رُخی اور اس قدر ساقی
تشنہ کامی سی تشنہ کامی ہے
دل میں پڑنے لگے بھنور ساقی
بجھ رہا ہے چراغ مے خانہ
رگ ساغر میں خون بھر ساقی
بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصل گل کی کوئی خبر ساقی
رند بکھرے ہیں ساغروں کی طرح
رنگ محفل پہ اک نظر ساقی
بے ارادہ چھلک چھلک جانا
جام مے ہے کہ چشم تر ساقی
اک کرن اس طرف سے گزری ہے
ہو رہی ہے کہیں سحر ساقی
توڑ کر سب حدود میخانہ
بوئے مے کی طرح بکھر ساقی
جانے کل رنگ زندگی کیا ہو
وقت کی کروٹوں سے ڈر ساقی
رات کے آخری تبسم پر
مئے باقیؔ نثار کر ساقی
باقی صدیقی

وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 155
اٹھ کر مری نظر ترے رُخ پہ ٹھہر گئی
وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات
اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی
تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں
اک اک کلی کے پاس نسیم سحر گئی
شبنم ہو، کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں
جو شے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی
ہر چند میرے غم کا مداوا نہ ہو سکا
پھر بھی تری نگاہ بڑا کام کر گئی
وارفتگان شوق کا باقیؔ نہ حال پوچھ
دل سے اٹھی وہ موج کہ سر سے گزر گئی
باقی صدیقی

کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 85
کیا دور جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے
غیروں کی طرح گزر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آیا
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
اے دشت حیات کے بگولو
ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم
آئی یہ کدھر سے تیری آواز
چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم
گزری ہے صبا قفس سے ہو کے
لینا غم بال و پر گئے ہم
ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ
طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم
باقی صدیقی

جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 36
لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا
جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا
زندگی کے ہنگامے دھڑکنوں میں ڈھلتے ہیں
خواب میں بھی سنتے ہیں شور رات بھر اپنا
دل کے ہر دریچے میں جھانکتے ہیں کچھ چہرے
خود کو راہ میں پایا رُخ کیا جدھر اپنا
کون کس سے الجھا ہے، ایک شور برپا ہے
جا رہاہے دیکھو تو قافلہ کدھر اپنا
خیر ہو ترے غم کی شام ہونے والی ہے
اور کر لیا ہم نے ایک دن بسر اپنا
رنگ زندگی دیکھا کچھ یہاں وہاں باقیؔ
غم غلط کیا ہم نے کچھ اِدھر اُدھر اپنا
باقی صدیقی