ٹیگ کے محفوظات: کرتے

سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے

وہ گِرد و پیش سے تھے بے خَبَر سَنوَرتے ہُوئے
سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے
رَہِ حیات میں ہَم کو بھی کچھ رَہی عُجلَت
اُنہیں بھی دیر لگی بام سے اُتَرتے ہُوئے
ہَمیَں بھَلا کِسی دَیر و حَرَم سے کیا لینا
ہَم آگئے ہیں کِسی کو تَلاش کَرتے ہُوئے
یہ اَور بات کِسی نے سُنا نہیں لیکن
پُکارے سَب کو تھے ہَم ڈُوبتے اُبھَرتے ہُوئے
سوال پوچھتے رہ جائیں گے مسیحا سے
یہ میری ڈُوبتی نَبضیَں یہ خواب مَرتے ہُوئے
نہ جانے کیا غمِ دَوراں کو آ گیا ہے پَسَند
کہ جھانک لیتا ہے اَکثَر یُونہی گذرتے ہُوئے
ہر ایک دَرد ہَماری پَناہ میں آیا
کسی کو دیکھ نہ پائے ہم آہ بھرتے ہُوئے
میں ہاتھ پاؤں لگا مارنے سُوئے ساحل
غَضَب کا طنز تھا اَمواج میں بپھرتے ہُوئے
زباں کے زَخم ہیں ضامنؔ! سو اِتنی عُجلَت کیا
تمام عُمر ہے دَرکار اِن کو بھرتے ہُوئے
ضامن جعفری

جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں اَیسے پھول
اس دھرتی کی رَونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول
ایک ہری کونپل کے لیے
میں نے چھوڑے کتنے پھول
اُونچے اُونچے لمبے پیڑ
ساوے پتے پیلے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اُترے پھول
چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھیں ملتے پھول
شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول
سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول
کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول
گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول
جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی وَیسے پھول
مہک اُٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
ناصر کاظمی

جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں

تری نگاہ کے جادُو بکھرتے جاتے ہیں
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
ترے بغیر وہ دِن بھی گزر گئے آخر
ترے بغیر یہ دِن بھی گزرتے جاتے ہیں
لیے چلو مجھے دریائے شوق کی موجو
کہ ہمسفر تو مرے پار اُترتے جاتے ہیں
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اُس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
میں خواہشوں کے گھروندے بنائے جاتا ہوں
وہ محنتیں مری برباد کرتے جاتے ہیں
ناصر کاظمی

دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 71
اُس کی جرات کو عجب معجزہ کرتے دیکھا
دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا
تختۂِ دار پہ اقرار کے اکے لمحے نے
اپنی دہلیز پہ صدیوں کو ٹھہرتے دیکھا
آج جو ہو گیا سُولی کے بھنور میں روپوش
چشمِ فردا نے اُسے پار اُترتے دیکھا
اپنے مرنے کا لیا موت سے پہلے بدلہ
یوں بھی ہم نے کسی سفاک کو مرتے دیکھا
کر گئیں گِر کے اُسے اپنی فصیلیں عریاں
شہر کا شہر ہواؤں میں بکھرتے دیکھا
جبر کی چھاؤنی میں قہر کا سناٹا تھا
دیوار سے سے آواز کو ڈرتے دیکھا
دور کی ڈوریوں سے خود بھی وہ پا بستہ تھا
ہم نے پُتلی کا تماشا جسے کرتے دیکھا
رات کی خاک سے پھوٹا گُلِ منظر ایسا
سو بہ سو ایک مشفق زار نکھرتے دیکھا
آفتاب اقبال شمیم

اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 30
لیا میں نے تو بوسہ خنجرِ قاتل کا مقتل میں
اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں
مرا خط پھینک کر قاتل کے مُنہ پر طنز سے بولے
خلاصہ سارے اس طومار کا یہ ہے کہ مرتے ہیں
ابھی اے جاں تو نے مرنے والوں کو نہیں دیکھا
جیئے ہم تو دکھا دیں گے کہ دیکھ اس طرح مرتے ہیں
قیامت دور، تنہائی کا عالم، روح پر صدمہ
ہمارے دن لحد میں دیکھیئے کیوں کر گزرتے ہیں
جو رکھ دیتی ہے شانہ آئینہ تنگ آ کے مشاطہ
ادائیں بول اُٹھتی ہیں کہ دیکھو یوں سنورتے ہیں
چمن کی سیر ہی چھوٹی تو پھر جینے سے کیا حاصل؟
گلا کاٹیں مرا صیاد ناحق پر کترتے ہیں
قیام اس بحرِ طوفاں خیز دنیا میں کہاں ہمدم؟
حباب آ سا ٹھہرتے ہیں تو کوئی دم ٹھہرتے ہیں
امیر مینائی