ٹیگ کے محفوظات: کتابیں

کہیں بجھی سگریٹوں کے ٹکڑے ،کہیں کتابیں کھلی پڑی ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 380
فراق کی انتظار گاہ میں کہیں شرابیں کھلی پڑی ہیں
کہیں بجھی سگریٹوں کے ٹکڑے ،کہیں کتابیں کھلی پڑی ہیں
کہا تو ہے سر پھری ہوا سے چلے سنبھل کر بہت سنبھل کر
میں خیمہء کائنات ہوں اور مری طنابیں کھلی پڑی ہیں
کوئی توآیا ہے خواب گاہِ دل و نظر میں ، یہ چھپ چھپا کے
تجوری ٹوٹی ہوئی ہے غم کی ، تمام خوابیں کھلی پڑی ہیں
جو انتظاروں کے ہم نفس ہیں قفس میں بس ہیں وہی پرندے
ملن کے چڑیاگھروں میں وحشت بھری شتابیں کھلی پڑی ہیں
وہاں ہے رخشِ حیات منصور اپنا پہنچا ، جہاں ابد پر
کہیں پہ ٹوٹی ہوئی ہیں باگیں ، کہیں رکابیں کھلی پڑی ہیں
منصور آفاق

ٹھیک رہتی ہیں ثوابوں کی کتابیں شلیف میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 329
باندھ کر رکھ آسمانوں کی طنابیں شلیف میں
ٹھیک رہتی ہیں ثوابوں کی کتابیں شلیف میں
سوچتی ہیں کس طرح تھے تیرے پیکر کے خطوط
میری بھیجی تین شرٹیں ، دو جرابیں شلیف میں
آتی صدیوں کے لئے کچھ تو مرے کاٹج میں ہو
میں نے آنکھوں سے چرا کر رکھ دیں خوابیں شلیف میں
میز پر تیرے کرم کی نرم آتش چاہئے
رہنے دے اپنی کہن سالہ شرابیں شلیف میں
بس کے اسٹاپوں پہ چپ ہیں دکھ کتابیں کھول کر
فائلیں ہیں راستوں میں اور جابیں شلیف میں
کچھ سوالوں کی بلند آہنگ سچائی کی خیر
سب دبے لہجے کی رکھ دی ہیں جوابیں شلیف میں
وقت کی دیمک ترے کچھ حاشیوں کے ساتھ ساتھ
درج ہیں تاریخ کی ساری خرابیں شلیف میں
منصور آفاق