منصور آفاق ۔ غزل نمبر 575
پتھر کے رتجگے میری پلکوں میں گاڑ کے
رکھ دیں ترے فراق نے آنکھیں اجاڑ کے
اتنی کوئی زیادہ مسافت نہیں مگر
مشکل مزاج ہوتے ہیں رستے پہاڑ کے
آنکھوں سے خدو خال نکالے نہ جا سکے
ہر چند پھینک دی تری تصویر پھاڑ کے
یہ بھولپن نہیں ہے کہ سورج کے آس پاس
رکھے گئے ہیں دائرے کانٹوں کی باڑ کے
مٹی میں مل گئی ہے تمنا ملاپ کی
کچھ اور گر پڑے ہیں کنارے دراڑ کے
بے مہر موسموں کو نہیں جانتا ابھی
خوش ہے جو سائباں سے تعلق بگاڑ کے
دو چار دن لکھی تھی جدائی کی سرگزشت
منصور ڈھیر لگ گئے گھر میں کباڑ کے
منصور آفاق