اُس نے دیکھا
وہ اکیلا اپنی آنکھوں کی عدالت میں کھڑا تھا
بے کشش اوقات میں بانٹی ہوئی صدیاں
کسی جلاّد کے قدموں کی آوازیں مسلسل
سُن رہی تھیں
آنے والے موسموں کے نوحہ گر مدّت سے
اپنی بے بسی کا زہر پی کے
مر چکے تھے
اُس نے چاہا
بند کمرے کی سلاخیں توڑ کر باہر نکل جائے
مگر شاخوں سے مُرجھائے ہوئے پتّوں کی صورت
ہاتھ اُس کے بازؤں سے گِر چکے تھے
آفتاب اقبال شمیم