ٹیگ کے محفوظات: کاہی

اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 24
کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
ہم اہلِ صدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں کہا
آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں کہا
ہم نے خیالِ یار میں کیا کیا غزل کہی
پھر بھی یہی گُماں ہے کہ کافی نہیں کہا
بس یہ کہا تھا دل کی دوا ہے مغاں کے پاس
ہم نے کبھی شراب کو شافی نہیں کہا
پہلے تو دل کی بات نہ لائے زبان پر
پھر کوئی حرف دل کے منافی نہیں کہا
اُس بے وفا سے ہم نے شکایت نہ کی فراز
عادت کو اُس کی وعدہ خلافی نہیں کہا
احمد فراز

کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی

دیوان پنجم غزل 1733
نہ بک شیخ اتنا بھی واہی تباہی
کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی
ملوں کیونکے ہم رنگ ہو تجھ سے اے گل
ترا رنگ شعلہ مرا رنگ کاہی
مجھے میر تا گور کاندھا دیا تھا
تمناے دل نے تو یاں تک نباہی
میر تقی میر

پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا

دیوان سوم غزل 1102
کیا ہے عشق جب سے میں نے اس ترک سپاہی کا
پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا
اگر ہم قطعۂ شب سا لیے چہرہ چلے آئے
قیامت شور ہو گا حشر کے دن روسیاہی کا
ہوا ہے عارفان شہر کو عرفان بھی اوندھا
کہ ہر درویش ہے مارا ہوا شوق الٰہی کا
ہمیشہ التفات اس کا کسو کے بخت سے ہو گا
نہیں شرمندہ میں تو اس کے لطف گاہ گاہی کا
برنگ کہربائی شمع اس کا رنگ جھمکے ہے
دماغ سیر اس کو کب ہے میرے رنگ کاہی کا
بڑھیں گے عہد کے درویش اس سے اور کیا یارو
کیا ہے لڑکوں نے دینا انھوں کو تاج شاہی کا
خراب احوال کچھ بکتا پھرے ہے دیر و کعبے میں
سخن کیا معتبر ہے میر سے واہی تباہی کا
میر تقی میر

رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا

دیوان اول غزل 162
خیال چھوڑ دے واعظ تو بے گناہی کا
رکھے ہے شوق اگر رحمت الٰہی کا
سیاہ بخت سے میرے مجھے کفایت تھی
لیا ہے داغ نے دامن عبث سیاہی کا
نگہ تمام تو اس کی خدا نہ دکھلاوے
کرے ہے قتل اثر جس کی کم نگاہی کا
کسو کے حسن کے شعلے کے آگے اڑتا ہے
سلوک میر سنو میرے رنگ کاہی کا
میر تقی میر

کافی

جیہڑا پھٹ میں میلن ہارا

اوہ ائی جاوے کھُل

ایدوں ودھ وی کیہہ ہووے گی

آخر میری بھُل

دِسّن تھانویں پیا لُکاواں

دل دا کھِڑیا پھُل

ماجدؔ یار عنایت رّب دی

مہک نہ وِکدی مُل

ماجد صدیقی (پنجابی کلام)