ٹیگ کے محفوظات: ڈرا

صورت کوئی بنے تو سفر ابتدا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہر شخص رہنما ہے کِسے رہنما کریں
صورت کوئی بنے تو سفر ابتدا کریں
ہاں کچھ تو والدین کو بھیجا کریں ضرور
پیسے نہیں تو خط ہی کبھی لکھ دیا کریں
مانگے اگر حساب کوئی صاحبِ دکان
پھیکی سی اک ہنسی نہ فقط ہنس دیا کریں
ماجدؔ بطرزِ نو سخن آرا تو ہوں ضرور
لوگوں کے تبصروں سے نہ لیکن ڈرا کریں
ماجد صدیقی

اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 9
برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر، نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا
تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا
احمد فراز