ٹیگ کے محفوظات: چھڑی

وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے

دیوان دوم غزل 1044
کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں
یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے
ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ
دیکھو تو مری آنکھ کہاں جاکے لڑی ہے
کیا اپنی شررریزی کہیں پلکوں کی صف کی
ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے
وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں
اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے
ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق
لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے
جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے
ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے
کھنچتا ہی نہیں ہم سے قدخم شدہ ہرگز
یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے
گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے
اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے
وہ زلف نہیں منعکس دیدئہ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
میر تقی میر

دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 541
لوٹ آئی ہوئی اک گزری گھڑی حیرت سے
دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے
کوئی آیا کسی کمرے میں کرامت کی طرح
اور تصویر کوئی بول پڑی حیرت سے
اک بگولے کی طرح اڑتے ہوئے دیکھتی تھی
درد کی دھول کو ساون کی جھڑی حیرت سے
تک رہی تھی کسی بنتے ہوئے ہیکل کے کلس
ایک دیمک زدہ لکڑی کی چھڑی حیرت سے
عشق اسرارِ لب و رخ سے کیا ہجر کی رات
رات بھر اپنی تو بس آنکھ لڑی حیرت سے
جلد میں اتنی بھی ہوتی ہے سفیدی منصور
چھو کے دیکھا تھا اسے میں نے بڑی حیرت سے
منصور آفاق

شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 481
روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی
شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی
دیکھنا ہے اسے مگر اپنی
آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی
آسماں بھی مرا مخالف ہے
ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی
ایک بجھتے ہوئے تعلق میں
شام کی آخری گھڑی ہے ابھی
ہم سے مایوس آسماں کیا ہو
موتیوں سے زمیں جڑی ہے ابھی
ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی
میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی
موسمِ گل ہے میرے گلشن میں
شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی
وہ کھلی ہے گلاب کی کونپل
میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی
سایہء زلف کی تمازت ہے
رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی
اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں
آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی
میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی
آگ دہکا نصیب میں منصور
برف خاصی گری پڑی ہے ابھی
منصور آفاق