ٹیگ کے محفوظات: چلنا

صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا

طاقت کے توازن کو بدلنا ہی پڑے گا
صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا
یہ راستہ منزل کو تَو جاتا ہی نہیں ہے
اب اَور کسی راہ پہ چلنا ہی پڑے گا
یہ آگ لگائی بھی تَو ہے آپ نے صاحب
اِس آگ میں اب آپ کو جلنا ہی پڑے گا
ہاں تیری تمازت سے بہت تنگ ہیں ہم لوگ
خورشیدِ تظلّم! تجھے ڈھَلنا ہی پڑے گا
سیلابِ لہو چاہیے تطہیرِ چمن کو
اب خون کے قطروں کو مچلنا ہی پڑے گا
وہ لوگ جو خوں پی کے تنومند ہُوئے ہیں
اُن لوگوں کو اب خون اُگلنا ہی پڑے گا
یہ زہرِ رعونت جو تری جان کا ہے روگ
اُگلا نہیں جاتا تَو نگلنا ہی پڑے گا
منزل کی طرف پُشت اگر کر کے چلیں گے
ضامنؔ! کفِ افسوس تَو مَلنا ہی پڑے گا
ضامن جعفری

ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 162
در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں
ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں
وہ کہتے ہیں کہ آزادی اسیری کے برابر ہے
تو یوں سمجھو کہ زنجیریں بدلنا چاہتا ہوں میں
MERGED نمو کرنے کو ہے میرا لہو قاتل کے سینے سے
وہ چشمہ ہوں کہ پتھر سے ابلنا چاہتا ہوں میں
بلند و پستِ دُنیا فیصلہ کرنے نہیں دیتے
کہ گرنا چاہتا ہوں یا سنبھلنا چاہتا ہوں میں
محبت میں ہوس کا سا مزا ملنا کہاں ممکن
وہ صرف اک روشنی ہے جس میں جلنا چاہتا ہوں میں
عرفان صدیقی