ٹیگ کے محفوظات: چاہت

ہم نے بس ایک اِسی فن میں ریاضت کی ہے

جو بھی انسان ملا اُس سے محبت کی ہے
ہم نے بس ایک اِسی فن میں ریاضت کی ہے
اپنی تکمیل کی خاطر تمہیں چاہا سب نے
اور دعویٰ یہ کیا تم سے محبت کی ہے
کیسے پہچانوگے دیکھا ہی نہ ہو جس کو کبھی
کیا سمجھ پاؤگے سچائی جو چاہت کی ہے
بد گمانی کامرقع ہے وہ حسنِ خودبیں
اور اِدھر عشق کو ضد ہے تو صداقت کی ہے
لوگ نفرت علی الاعلان کِیا کرتے ہیں
ہم گنہگار ہوئے ہیں کہ محبت کی ہے
اُن کے محتاط تغافل کا سحر ہے ضامنؔ
بات دیوانگیٔ شوق کو حیرت کی ہے
ضامن جعفری

نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 534
فقیر اپنا ستارہ خدا کی رحمت سے
نکال لایا ہے حرص و ہواکی صحبت سے
ثباتِذات کا اثبات کرلیا لیکن
گریزپا ہوں نفی سے فنا کی چاہت سے
مری گلی سے سویرے گزارنے والو
میں زخم زخم ہوں بادِ صبا کی نکہت سے
دکھائی دیتا ہے طوفان کوئی آیا ہوا
کواڑ ٹوٹ نہ جائیں ہوا کی وحشت سے
خدا نہیں ہے کہ اس کا شریک کوئی نہ ہو
اسے بھی چاہوں تمہیں بھی بلا کی شدت سے
کچھ اور ہوتے روشن ستم کی راہوں میں
دئیے،مصیبتِ بے انتہا کی ظلمت سے
بڑے وقار سے ٹکرا رہے ہیں پھرمنصور
ضمیر وقت کے، فرماروا کی قوت سے
منصور آفاق