ٹیگ کے محفوظات: چائو

ساتھ ان کے چل تماشا کرلے جس کو چائو ہو

دیوان چہارم غزل 1478
رفتن رنگین گل رویاں سے کیا ٹھہرائو ہو
ساتھ ان کے چل تماشا کرلے جس کو چائو ہو
قد جو خم پیری سے ہو تو سرکا دھننا ہیچ ہے
ہوچکا ہونا جو کچھ تھا اب عبث پچھتائو ہو
خون کے سیلاب میں ڈوبے ہوئوں کا کیا شمار
ٹک بہے وہ جدول شمشیر تو ستھرائو ہو
تھی وفا و مہر تو بابت دیارعشق کی
دیکھیں شہر حسن میں اس جنس کا کیا بھائو ہو
گریۂ خونیں سے ہیں رخسار میرے لعل تر
دیدئہ خوں بار یوں ہیں جیسے منھ پر گھائو ہو
میر تقی میر

دل داغ ہورہا ہے چمن کے سبھائو سے

دیوان سوم غزل 1302
دن فصل گل کے اب کے بھی جاتے ہیں بائو سے
دل داغ ہورہا ہے چمن کے سبھائو سے
پہنچی نہ باس گل کی ہمارے مشام میں
یاں کھل رہے ہیں دیدئہ خوں بار گھائو سے
نامہ مرے عمل کا بھی اے کاش ساتھ جائے
جب آسمان لپٹیں گے کاغذ کے تائو سے
وارفتگان عشق بھی کیا طرفہ لوگ ہیں
دل کے گئے پہ دیتے ہیں جی کیسے چائو سے
کہتے تو کہیے بات کوئی دل کی میر سے
پر جی بہت ڈرے ہے انھوں کے چوائو سے
میر تقی میر

ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگائو

دیوان سوم غزل 1237
سب کھا گئے جگر تری پلکوں کے کاو کاو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگائو
آنکھوں کا جھڑ برسنے سے ہتھیا کے کم نہیں
پل مارتے ہے پیش نظر ہاتھی کا ڈبائو
کشتی چشم ڈوبی رہی بحر اشک میں
آئی نہ پار ہوتی نظر عاشقوں کی نائو
سینے کے اپنے زخم سے خاطر ہو جمع کیا
دل ہی کی اور پاتے ہیں سب لوہو کا بہائو
بیتابی دل افعی خامہ نے کیا لکھی
کاغذ کو شکل مار سراسر ہے پیچ تائو
ہرچند جانیں جاتی ہیں پر تیغ جور سے
تم کو ہمارے سر کی سوں تم ہاتھ مت اٹھائو
سر نیچے ہو تو پاؤں ترا دابیں ہم کبھی
دبتا وہی ہے جس کے تئیں کچھ بھی ہو دبائو
چاک قفس سے آنکھیں لگیں کب تلک رہیں
اک برگ گل نسیم ہماری طرف بھی لائو
غیرت کا عشق کی ہے طریقہ ہی کچھ جدا
اس کی گلی کی خضرؑ کو بھی راہ مت بتائو
ظاہر ہیں دیکھنے سے گنہ کیونکہ تیرے سب
چھپتے ہیں میر کوئی دلوں کے کہیں لگائو
میر تقی میر

جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی بائو

دیوان سوم غزل 1236
رہتا ہے پیش دیدئہ تر آہ کا سبھائو
جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی بائو
برسے گی برف عرصۂ محشر میں دشت دشت
گر میری سرد آہوں کا واں ہو گیا جمائو
حاصل کوئی امید ہوئی ہو تو میں کہوں
خوں ہی ہوا کیے ہیں مرے دل میں سارے چائو
آنکھوں کے آگے رونے سے میرے محیط ہے
ابروں سے جا کہے کوئی پانی پیو تو آئو
رہتی تھی اشک خونیں میں ڈوبی سب آستیں
اس چشم بحرخوں کے کبھو دیکھے ہیں چڑھائو
اظہار درد اگرچہ بہت بے نمک ہے پر
ٹک بیٹھو تو دکھاویں تمھیں چھاتیوں کے گھائو
آ عاشقوں کی آنکھوں میں ٹک اے بہ دل قریب
ان منظروں سے بھی ہے بہت دور تک دکھائو
صحبت جو اس سے رہتی ہے کیا نقل کریے ہائے
جب آگئے ہیں ہم تو کہا ان نے یاں سے جائو
صد چاک اپنے دل سے تو بگڑا ہی کی وہ زلف
افسوں کیا ہے شانے نے جو اس سے ہے بنائو
اس ہی زمیں میں میر غزل اور ایک کہہ
گو خوش نہ آوے سامعوں کو بات کا بڑھائو
میر تقی میر

ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور بائو ہے

دیوان اول غزل 569
دل کی طرف کچھ آہ سے دل کا لگائو ہے
ٹک آپ بھی تو آیئے یاں زور بائو ہے
اٹھتا نہیں ہے ہاتھ ترا تیغ جور سے
ناحق کشی کہاں تئیں یہ کیا سبھائو ہے
باغ نظر ہے چشم کے منظر کا سب جہاں
ٹک ٹھہرو یاں تو جانو کہ کیسا دکھائو ہے
تقریب ہم نے ڈالی ہے اس سے جوئے کی اب
جو بن پڑے ہے ٹک تو ہمارا ہی دائو ہے
ٹپکا کرے ہے آنکھ سے لوہو ہی روز و شب
چہرے پہ میرے چشم ہے یا کوئی گھائو ہے
ضبط سرشک خونیں سے جی کیونکے شاد ہو
اب دل کی طرف لوہو کا سارا بہائو ہے
اب سب کے روزگار کی صورت بگڑ گئی
لاکھوں میں ایک دو کا کہیں کچھ بنائو ہے
چھاتی کے میری سارے نمودار ہیں یہ زخم
پردہ رہا ہے کون سا اب کیا چھپائو ہے
عاشق کہیں جو ہو گے تو جانوگے قدر میر
اب تو کسی کے چاہنے کا تم کو چائو ہے
میر تقی میر