ٹیگ کے محفوظات: پگھلتے

چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں

جو اشکِ خوں مری پلکوں سے بہ نکلتے ہیں
چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حَسیں سایے
اداس پآ کے مجھے، اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دامِ جنوں ہوں، مجھے رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس میرے ساتھ چلتے ہیں
وہ شمعِ رُو کا شبستاں، یہ بزمِ ہجراں ہے
’’وہاں چراغ، یہاں دل کے داغ جلتے ہیں،،
پرائی آگ سے شاید گداز ہو جائیں
خود اپنی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں
یہ دل، وہ کارگہِ مرگ و زیست ہے کہ جہاں
ستارے ڈوبتے ہیں، آفتاب ڈھلتے ہیں
شکیبؔ! حُسنِ سماعت ہے آپ کا ورنہ
دلِ شکستہ سے نغمے کہاں اُبلتے ہیں
شکیب جلالی

کسی کی یاد کے جُگنو دھواں اُگلتے ہیں

ہواے شب سے نہ بُجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں
کسی کی یاد کے جُگنو دھواں اُگلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حسیں سائے
اُداس پآ کے ہمیں ‘ اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دامِ جنوں ہیں ‘ ہمیں رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس اپنے ساتھ چلتے ہیں
یہ دل وہ کار گہِ مرگ و زیست ہے کہ جہاں
ستارے ڈوبتے ہیں ‘ آفتاب ڈھلتے ہیں
خود اپنی آگ سے شاید گداز ہوجائیں
پرائی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں
شکیب جلالی

ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں

دیوان سوم غزل 1191
کہتے ہیں بہار آئی گل پھول نکلتے ہیں
ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں
اب ایک سی بیہوشی رہتی نہیں ہے ہم کو
کچھ دل بھی سنبھلتے ہیں پر دیر سنبھلتے ہیں
وہ تو نہیں اک چھینٹا رونے کا ہوا گاہے
اب دیدئہ تر اکثر دریا سے ابلتے ہیں
ان پائوں کو آنکھوں سے ہم ملتے رہے جیسا
افسوس سے ہاتھوں کو اب ویسا ہی ملتے ہیں
کیا کہیے کہ اعضا سب پانی ہوئے ہیں اپنے
ہم آتش ہجراں میں یوں ہی پڑے گلتے ہیں
کرتے ہیں صفت جب ہم لعل لب جاناں کی
تب کوئی ہمیں دیکھے کیا لعل اگلتے ہیں
گل پھول سے بھی اپنے دل تو نہیں لگتے ٹک
جی لوگوں کے بے جاناں کس طور بہلتے ہیں
ہیں نرم صنم گونہ کہنے کے تئیں ورنہ
پتھر ہیں انھوں کے دل کاہے کو پگھلتے ہیں
اے گرم سفر یاراں جو ہے سو سر رہ ہے
جو رہ سکو رہ جائو اب میر بھی چلتے ہیں
میر تقی میر

داغ جیسے چراغ جلتے ہیں

دیوان اول غزل 287
سوزش دل سے مفت گلتے ہیں
داغ جیسے چراغ جلتے ہیں
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں ہاتھ ملتے ہیں
بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں ابلتے ہیں
دم آخر ہے بیٹھ جا مت جا
صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں
تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
ایسے ڈوبے کہیں اچھلتے ہیں
فتنہ درسر بتان حشر خرام
ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں
نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
سوتے سے اٹھ کے آنکھ ملتے ہیں
اس سر زلف کا خیال نہ چھوڑ
سانپ کے سر ہی یاں کچلتے ہیں
تھے جو اغیار سنگ سینے کے
اب تو کچھ ہم کو دیکھ ٹلتے ہیں
شمع رو موم کے بنے ہیں مگر
گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں
میر صاحب کو دیکھیے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں
میر تقی میر

صبحِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 412
جلتی ہوئی چتا سے نکلتے ہوئے بھی دیکھ
صبحِ فلک پہ اب مجھے چلتے ہوئے بھی دیکھ
جس کو بلا کا زعم تھا اپنے مزاج پر
وہ آہنی چٹان پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
چھو کر کسی گلاب کو موجِ بدن کے رنگ
بہتی ہوئی ندی میں مچلتے ہوئے بھی دیکھ
اے بادِ تندِ یار تجھے اور کیا کہوں
بجھتے ہوئے چراغ کو جلتے ہوئے بھی دیکھ
پاگل سا ہو گیا تھا جسے دیکھ کر کبھی
اس چودھویں کے چاند کو ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
مجھ کو گرا دیا تھا زمیں پر تو کیا ہوا
سطحِ زمیں سے گیند اچھلتے ہوئے بھی دیکھ
وہ بھی تو ایک پیڑ تھا اپنے نصیب کا
موسم کے ساتھ اس کو بدلتے ہوئے بھی دیکھ
منصور پھر کھڑا ہے خود اپنے ہی پاؤں پر
جو گر گیا تھا اس کو سنبھلتے ہوئے بھی دیکھ
منصور آفاق