ٹیگ کے محفوظات: پچھتاوے

یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا

دیوان پنجم غزل 1548
آج ہمارا دل تڑپے ہے کوئی ادھر سے آوے گا
یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا
ہم نہیں لکھتے اس لیے اس کو شوخ بہت ہے وہ لڑکا
خط کا کاغذ بادی کرے گا بائو کا رخ بتلاوے گا
رنج بہت کھینچے تھے ہم نے طاقت جی کی تمام ہوئی
اپنے کیے پر یاد رہے یہ وہ بھی بہت پچھتاوے گا
اندھے سے ہم چاہ میں اس کی گو اے ناصح پھرتے ہیں
سوجھتا بھی کچھ کر آئیں گے کیا تو ہم کو سجھاوے گا
عاشق ہووے وہ بھی یارب تا کچھ اس سے کہا جاوے
یعنی حال سنے گا دل سے دل جو کسی سے لگاوے گا
عاشق کی دلجوئی کی بھی راہ و رسم سے واقف رہ
ہو جو ایسا گم شدہ اپنا اس کو نہ تو پھر پاوے گا
آنکھیں موندے یہ دلبر جو سوتے رہیں تو بہتر ہے
چشمک کرنا ایک انھوں کا سو سو فتنے جگاوے گا
کیا صورت ہے کیا قامت ہے دست و پاکیا نازک ہیں
ایسے پتلے منھ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا
چتون بے ڈھب آنکھیں پھریں ہیں پلکوں سے بھی نظر چھوٹی
عشق ابھی کیا جانیے ہم کو کیا کیا میر دکھاوے گا
میر تقی میر

کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا

دیوان چہارم غزل 1339
خوں نہ ہوا دل چاہیے جیسا گو اب کام سے جاوے گا
کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا
آنکھیں لگی رہتی ہیں اکثر چاک قفس سے اسیروں کی
جھونکا باد بہاری کا گل برگ کوئی یاں لاوے گا
فتنے کتنے جمع ہوئے ہیں زلف و خال و خد و قد
کوئی نہ کوئی عہد میں میرے سران میں سے اٹھاوے گا
عشق میں تیرے کیا کیا سن کر یار گئی کر جاتے ہیں
یعنی غم کھاتے ہیں بہت ہم غم بھی ہم کو کھاوے گا
ایک نگہ کی امید بھی اس کی چشم شوخ سے ہم کو نہیں
ایدھر اودھر دیکھے گا پر ہم سے آنکھ چھپاوے گا
اب تو جوانی کا یہ نشہ ہی بے خود تجھ کو رکھے گا
ہوش گیا پھر آوے گا تو دیر تلک پچھتاوے گا
دیر سے اس اندیشے نے ناکام رکھا ہے میر ہمیں
پائوں چھوئیں گے اس کے ہم تو وہ بھی ہاتھ لگاوے گا
میر تقی میر