ٹیگ کے محفوظات: پون

درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے
اُڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھول ہے
اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھول ہے
تختہِ ریگ پر کوئی دیکھے اسے
سانپ کے زہر میں رس ہے پھن پھول ہے
میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دَمن
میرے گیتوں کا دِیوانہ پن پھول ہے
ناصر کاظمی

بیِتے لمحوں کی جھانجھن

ساری رات جگاتی ہے
بیِتے لمحوں کی جھانجھن
لال کھجوروں نے پہنے
زرد بگولوں کے کنگن
چلتا دریا، ڈھلتی رات
سن سن کرتی تیز پون
ہونٹوں پر برسوں کی پیاس
آنکھوں میں کوسوں کی تھکن
پہلی بارش، میں اور تو
زرد پہاڑوں کا دامن
پیاسی جھیل اور دو چہرے
دو چہرے اور اِک درپن
تیری یاد سے لڑتا ہوں
دیکھ تو میرا پاگل پن
ناصر کاظمی

بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں

دیوان اول غزل 301
زباں رکھ غنچہ ساں اپنے دہن میں
بندھی مٹھی چلا جا اس چمن میں
نہ کھول اے یار میرا گور میں منھ
کہ حسرت ہے مری جاگہ کفن میں
رکھا کر ہاتھ دل پر آہ کرتے
نہیں رہتا چراغ ایسی پون میں
جلے دل کی مصیبت اپنے سن کر
لگی ہے آگ سارے تن بدن میں
نہ تجھ بن ہوش میں ہم آئے ساقی
مسافر ہی رہے اکثر وطن میں
خردمندی ہوئی زنجیر ورنہ
گذرتی خوب تھی دیوانہ پن میں
کہاں کے شمع و پروانے گئے مر
بہت آتش بجاں تھے اس چمن میں
کہاں عاجز سخن قادر سخن ہوں
ہمیں ہے شبہ یاروں کے سخن میں
گداز عشق میں بہ بھی گیا میر
یہی دھوکا سا ہے اب پیرہن میں
میر تقی میر

ہے علم مجھے میں کون

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 12
میں موسیٰ میں فرعون
ہے علم مجھے میں کون
میں ازلوں سے موجود
میں کُن کا آواگون
میں آپ خداکا ہاتھ
میں آپ الہی عون
پوری کب کوئی چیز
ہر ایک حقیقت پون
لیکھ بھوانی جنگشن
وقت پرانا بھون
شاعر ہوسکتا تھا
بدقسمت بھائی جون
میں بلھا میں منصور
میں کون سنو میں کون
منصور آفاق