ٹیگ کے محفوظات: پرستی

میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی

مِری خودی کے نَشے سے آخر خُمارِ ہَستی نے ہار مانی
میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی
اَمیرِ شہر اَب تُو کہہ چُکا ہے تَو ایک میری بھی بات سُن لے
تِری شِکَم پَروَری سے کَب میری فاقہ مَستی نے ہار مانی
ہَر ایک خواہِش نے خُود کو تَرجیح دینا چاہی تھی مُجھ پَہ لیکِن
مِرے اُصولوں کے سامنے اُس کی خُود پَرَستی نے ہار مانی
لِباسِ مَظلوم میں ہو ظالِم بُہَت مِثالیں مِلیں گی اِس کی
کَہیِں بھی تاریخ میں نَہیِں ہے کہ چیِرہ دَستی نے ہار مانی
کَبھی پَہاڑوں کی چوٹیوں نے نَظَر بھی ڈالی نہ اُس پَہ جُھک کَر
بَلَندِیوں کی بَلا سے ضامنؔ اَگَر نَہ پَستی نے ہار مانی
ضامن جعفری

تخلیق کرناملک ہے مرضی کا دیس میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 328
نقشہ بنا نا ہے نئی دھرتی کا دیس میں
تخلیق کرناملک ہے مرضی کا دیس میں
ڈاکوہوئے امیر تو مفلس غریب چور
عفریت ہے حرام پرستی کا دیس میں
لوگوں نے رکھ لیا ہے اندھیرے کا نام صبح
ہو گا کہاں ظہور سفیدی کا دیس میں
کب تن پہ کپڑے ہونگے کب سر پہ ہو گی چھت
کب ختم ہو گا مسئلہ روٹی کا دیس میں
زینہ بہ زنیہ جاتے ہیں پاؤں فلک کی سمت
اک سلسلہ ہے دھند کی سیڑھی کا دیس میں
پستی کی انتہا پہ مسافر پہنچ گئے
اک راستہ عجب تھابلندی کا دیس میں
کیکر کے پھول دارپرانے درخت کا
پھر سے مقابلہ ہے چنبیلی کا دیس میں
منصور لکھ’’جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
منظر وہی ہے غالب و دہلی کا دیس میں
منصور آفاق