ٹیگ کے محفوظات: پرداز

عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے

دیوان پنجم غزل 1734
ادھر مطرب کا عودی رنگ کب طناز آتا ہے
عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے
خبر ہے شرط اتنا مت برس اے ابر بارندہ
ہمیں بھی آج رونا درد دل پرداز آتا ہے
اٹھے ہے گرد معشوقانہ اس تربت سے عاشق کی
کبھو ٹک جس کے اوپر وہ سراپا ناز آتا ہے
عجب رنگ حنا طائر ہے دست آموز خوباں کا
اڑے ہے تو بھی ہاتھوں ہی میں کر پرواز آتا ہے
وہی نازاں خراماں کبک سا آیا مری جانب
کوئی مغرور وہ شوخی سے اپنی باز آتا ہے
رہائی اپنی ہے دشوار کب صیاد چھوڑے ہے
اسیر دام ہو طائر جو خوش آواز آتا ہے
اگر مسجد سے آئوں میر تو بھی لوگ کہتے ہیں
کہ میخانے سے پھر دیکھو وہ شاہد باز آتا ہے
میر تقی میر

پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو

دیوان سوم غزل 1225
سر کاٹ کے ڈلوا دیے انداز تو دیکھو
پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو
کچھ سوجھ نہیں پڑتی تمھیں بے خبری سے
ٹک ہوش کی آنکھوں کو کرو باز تو دیکھو
اس بت سے نہیں جب تئیں صحبت تو نہیں ہے
یہ ڈول جو ہوتا ہے خدا ساز تو دیکھو
شب آنکھ مری لگنے نہیں دیتی ہے بلبل
اس مرغ کی بیتابی آواز تو دیکھو
دل ایک تڑپنے میں پرے عرش کے پایا
اس طائر بے بال کی پرواز تو دیکھو
کی زلف و خط و خال نے ایک اور قیامت
تصویر سے چہرے پہ یہ پرداز تو دیکھو
سب میر کو دیتے ہیں جگہ آنکھوں پر اپنی
اس خاک رہ عشق کا اعزاز تو دیکھو
میر تقی میر

ساری دنیا ہے غماز

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 10
کب تک راز رہے گا راز
ساری دنیا ہے غماز
کس کے نغمے، کس کا ساز
دیکھ زمانے کے انداز
گونج رہی ہے کانوں میں
اک سے ایک نئی آواز
جب دیکھو برہم برہم
کون اٹھائے اتنے ناز
ہمرازوں کے سینوں میں
ڈھونڈ رہا ہوں اپنا راز
آپ مجسم مہر و وفا
باقیؔ سب فتنہ پرداز
باقی صدیقی