عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 77
میں اُس کی آنکھوں کا اک خواب تھا، مگر اِک رات
وہ کچی نیند کی صورت مجھے اُچاٹ گیا
سنا تھا میں نے کہ فطرت خلاء کی دشمن ہے
سو وہ بدن مری تنہائیوں کو پاٹ گیا
مرے گماں نے مرے سب یقیں جلا ڈالے
ذرا سا شعلہ، بھری بستیوں کو چاٹ گیا
لچک کے ملنا تھا اُس تیز دھار سے عرفانؔ
تنے ہوئے تھے تو یہ وار تم کو کاٹ گیا
عرفان صدیقی