ٹیگ کے محفوظات: پاتے

رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم

دیوان چہارم غزل 1442
چاہیے یوں تھا بگڑی صحبت آپھی آ کے بناتے تم
رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم
چلتے کہا تھا جائو سفر کر آئوگے تو ملیے گا
وعدئہ وصل نہ ہوتا تو پھر کس کو جیتا پاتے تم
کیا دن تھے وے دیکھتے تم کو نیچی نظر میں کرلیتا
شرما شرما لوگوں سے جب آنکھیں مجھ کو دکھاتے تم
بستر پر میں مردہ سا تھا جان سی مجھ میں آجاتی
کیا ہوتا جو رنجہ قدم کر میرے سرہانے آتے تم
دل کے اوپر ہاتھ رکھے ہی شام و سحر یاں گذرے ہے
حال یہ تھا تو دل عاشق کا ہاتھ میں ٹک تو لاتے تم
خاک ہے اصل طینت آدم چاہیے اس کو عجز کرے
بات کی تہ کو کچھ پاتے تو اتنا سر نہ اٹھاتے تم
چہرہ زرد بجا ہے سارا عشق میں غم کا مارا ہوں
رنگ یہ دیکھا ہوتا تو دل میر کہیں نہ لگاتے تم
میر تقی میر

بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ

دیوان دوم غزل 849
رہ مرگ سے کیوں ڈراتے ہیں لوگ
بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ
مظاہر سب اس کے ہیں ظاہر ہے وہ
تکلف ہے یاں جو چھپاتے ہیں لوگ
عجب کی جگہ ہے کہ اس کی جگہ
ہمارے تئیں ہی بتاتے ہیں لوگ
رہے ہم تو کھوئے گئے سے سدا
کبھو آپ میں ہم کو پاتے ہیں لوگ
اس ابرو کماں پر جو قرباں ہیں ہم
ہمیں کو نشانہ بناتے ہیں لوگ
نہ سویا کوئی شور شب سے مرے
قیامت اذیت اٹھاتے ہیں لوگ
ان آنکھوں کے بیمار ہیں میر ہم
بجا دیکھنے ہم کو آتے ہیں لوگ
میر تقی میر

پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے

دیوان اول غزل 494
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے
پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے
گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو اب ہے
تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے
وے دن گئے کہ اٹھ کر جاتے تھے اس گلی میں
اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اٹھاتے
کب تھی ہمیں تمنا اے ضعف یہ کہ تڑپیں
پر زیر تیغ اس کی ہم ٹک تو سر ہلاتے
گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو
کاہے کو خاک میں ہم اپنے تئیں ملاتے
شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتوں کو آتے آتے
اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی
حال خراب مجلس ہم شیخ کو دکھاتے
جی دینا دل دہی سے بہتر تھا صدمراتب
اے کاش جان دیتے ہم بھی نہ دل لگاتے
شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز ورنہ
احوال میر صاحب ہم تجھ کو سب سناتے
میر تقی میر

گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں

دیوان اول غزل 325
ہم تو مطرب پسرکے جاتے ہیں
گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں
خاک میں لوٹتے تھے کل تجھ بن
آج لوہو میں ہم نہاتے ہیں
اے عدم ہونے والو تم تو چلو
ہم بھی اب کوئی دم میں آتے ہیں
ایک کہتا ہوں میں تو منھ پہ رقیب
تیری پشتی سے سو سناتے ہیں
دیدہ و دل کا کیا کیا تھا میں
روز آفت جو مجھ پہ لاتے ہیں
کوئی رووے ہے کوئی تڑپے ہے
کیا کروں میرے گھر سے آتے ہیں
ورنہ میں میر ہوں مرے آگے
دشت غم بھی نہ ٹکنے پاتے ہیں
کھود گاڑوں زمیں میں دونوں کو
گرچہ یہ آسماں پہ جاتے ہیں
دیدہ و دل شتاب گم ہوں میر
سر پہ آفت ہمیشہ لاتے ہیں
میر تقی میر

وہ راہ کے ہرہر کاٹنے پر کچھ خونِجگر ٹپکاتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 359
یہ راہِ محبت ہے ساتھی اس راہ پہ جو بھی آتے ہیں
وہ راہ کے ہرہر کاٹنے پر کچھ خونِجگر ٹپکاتے ہیں
اس دور کا ہم سرمایہ ہیں ہم اہل جنوں ہم اہل وفا
ہم کرب میں ڈوبی دنیا کو پھر کرب و بلا میں لاتے ہیں
تم لوگ فرازِ منبر سے شبیر پہ بس تقریر کرو
ہم رند اُتر کر میداں میں پھررسم وہی دھراتے ہیں
تاریخ کا یہ دوراھا ہے اک سمت وفا اک سمت جفا
کچھ جاہ و حشم کے راہی ہیں ،، کچھ دارورسن کو جاتے ہیں
یہ لوح و قلم کے مفتی کا منصورازل سے فتویٰ ہے
جو زخمِ جگر کو بوسے دیں وہ لوگ مرادیں پاتے ہیں
منصور آفاق

ناصح قوم اس پہ کہلاتے ہیں آپ

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 39
یہ ہیں واعظ، سب پہ منہ آتے ہیں آپ
ناصح قوم اس پہ کہلاتے ہیں آپ
بس بہت طعن و ملامت کر چکے
کیوں زباں رندوں کی کھلواتے ہیں آپ
ہے صراحی میں وہی لذت کہ جو
چڑھ کے ممبر پر مزا پاتے ہیں آپ
واعظو ہے ان کو شرمانا گناہ
جو گنہ سے اپنے شرماتے ہیں آپ
کرتے ہیں اک اک کی تکفیر آپ کیوں
ا س پہ بھی کچھ غور فرماتے ہیں آپ
چھیڑ کر واعظ کو حالیؔ خلد سے
بسترا کیوں اپنا پھکواتے ہیں آپ
الطاف حسین حالی