ٹیگ کے محفوظات: پائوں

تیغ قاتل کو سر چڑھائوں گا

دیوان پنجم غزل 1545
طوف مشہد کو کل جو جائوں گا
تیغ قاتل کو سر چڑھائوں گا
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منھ دکھائوں گا
چھانتا ہوں کسی گلی کی خاک
دل کو اپنے کبھو تو پائوں گا
اس کے در پر گئے ہیں تاب و تواں
گھر تلک اپنے کیوں کے جائوں گا
لوٹتا ہے بہار منھ کی خط
میر میں اس پہ زہر کھائوں گا
میر تقی میر

چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھائوں گا

دیوان چہارم غزل 1341
دل کو کہیں لگنے دو میرے کیا کیا رنگ دکھائوں گا
چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھائوں گا
عہد کیے جائوں ہوں اب کے آخر مجھ کو غیرت ہے
تو بھی منانے آوے گا تو ساتھ نہ تیرے جائوں گا
گرچہ نصیحت سب ضائع ہے لیکن خاطر ناصح کی
دل دیوانہ کیا سمجھے گا اور بھی میں سمجھائوں گا
جھک کے سلام کسو کو کرنا سجدہ ہی ہوجاتا ہے
سر جاوے گو اس میں میرا سر نہ فرو میں لائوں گا
سر ہی سے سر واہ یہ سب ہے ہجر کی اس کے کلفت میں
سر کو کاٹ کے ہاتھ پہ رکھے آپھی ملنے جائوں گا
خاک ملا منھ خون آنکھوں میں چاک گریباں تا دامن
صورت حال اب اپنی اس کے خاطرخواہ بنائوں گا
دل کے تئیں اس راہ میں کھو افسوس کناں اب پھرتا ہوں
یعنی رفیق شفیق پھر ایسے میر کہاں میں پائوں گا
میر تقی میر

یاں پھر اگر آئوں گا سید نہ کہائوں گا

دیوان چہارم غزل 1321
در پر سے ترے اب کے جائوں گا تو جائوں گا
یاں پھر اگر آئوں گا سید نہ کہائوں گا
یہ نذر بدی ہے میں کعبے سے جو اٹھنا ہو
بت خانے میں جائوں گا زنار بندھائوں گا
آزار بہت کھینچے یہ عہد کیا ہے اب
آئندہ کسو سے میں دل کو نہ لگائوں گا
سرگرم طلب ہوکر کھویا سا گیا آپھی
کیا جانیے پائوں گا یا اس کو نہ پائوں گا
گو میر ہوں چپکا سا پر طرفہ ہنرور ہوں
بگڑے گا نہ ٹک وہ تو سو باتیں سنائوں گا
میر تقی میر

غم سے پانی ہوکے کب کا بہ گیا میں ہوں کہاں

دیوان سوم غزل 1176
رو چکا خون جگر سب اب جگر میں خوں کہاں
غم سے پانی ہوکے کب کا بہ گیا میں ہوں کہاں
دست و دامن جیب و آغوش اپنے اس لائق نہ تھے
پھول میں اس باغ خوبی سے جو لوں تو لوں کہاں
عاشق و معشوق یاں آخر فسانے ہو گئے
جاے گریہ ہے جہاں لیلیٰ کہاں مجنوں کہاں
آگ برسی تیرہ عالم ہو گیا جادو سے پر
اس کی چشم پرفسوں کے سامنے افسوں کہاں
سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت
سرو کا مصرع کہاں وہ قامت موزوں کہاں
کوچہ ہر یک جاے دلکش عالم خاکی میں ہے
پر کہیں لگتا نہیں جی ہائے میں دل دوں کہاں
ایک دم سے قیس کے جنگل بھرا رہتا تھا کیا
اب گئے پر اس کے ویسی رونق ہاموں کہاں
ناصح مشفق تو کہتا تھا کہ اس سے مت ملے
پر سمجھتا ہے ہمارا یہ دل محزوں کہاں
بائو کے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار
اب کہاں فرہاد و شیریں خسرو گلگوں کہاں
کھا گیا اندوہ مجھ کو دوستان رفتہ کا
ڈھونڈتا ہے جی بہت پر اب انھیں پائوں کہاں
تھا وہ فتنہ ملنے کی گوں کب کسی درویش کے
کیا کہیں ہم میر صاحب سے ہوئے مفتوں کہاں
میر تقی میر

مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملائوں

دیوان اول غزل 286
وحشت میں ہوں بلا گر وادی پر اپنی آئوں
مجنوں کی محنتیں سب میں خاک میں ملائوں
ہنس کر کبھو بلایا تو برسوں تک رلایا
اس کی ستم ظریفی کس کے تئیں دکھائوں
فریادی ہوں تو ٹپکے لوہو مری زباں سے
نالے کو بلبلوں کے خاطر میں بھی نہ لائوں
پوچھو نہ دل کے غم کو ایسا نہ ہووے یاراں
مانند روضہ خواں کے مجلس کے تیں رلائوں
لگتی ہے آگ تن میں دیکھے سے داغ اس کے
اس دل جلے ہوئے پہ کتنا ہی جی جلائوں
اک دم تو چونک بھی پڑ شور و فغاں سے میرے
اے بخت خفتہ کب تک تیرے تئیں جگائوں
از خویش رفتہ ہر دم فکر وصال میں ہوں
کتنا میں کھویا جائوں یارب کہ تجھ کو پائوں
عریاں تنی کی شوخی وحشت میں کیا بلا تھی
تہ گرد کی نہ بیٹھی تا تن کے تیں چھپائوں
اگلے خطوں نے میرے مطلق اثر نہ بخشا
قاصد کے بدلے اب کے جادو مگر چلائوں
دل تفتگی نے مارا مجھ کو کہاں مژہ دے
اک قطرہ آب تا میں اس آگ کو بجھائوں
آسودگی تو معلوم اے میر جیتے جی یاں
آرام تب ہی پائوں جب جی سے ہاتھ اٹھائوں
میر تقی میر