ٹیگ کے محفوظات: ٹھکرائی

جا رہی ہے جو ندی کھیتوں سے شرمائی ہوئی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 213
یہ بھی گزرے ہوئے بادل کی ہے ترسائی ہوئی
جا رہی ہے جو ندی کھیتوں سے شرمائی ہوئی
ذہن شاعر کا، نئی صبحوں کے سورج کی کرن
جیسے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی
اب میں یہ سوچ کے رک جاؤں تو جل جاؤں گا
کہ ہے یہ آگ کسی اور کی بھڑکائی ہوئی
کیا چھپا رکھا ہے دیواروں نے خوشبو کے چراغ
کیوں منڈیروں پہ ہوا پھرتی ہے گھبرائی ہوئی
لیجیے مجھ سے یہ بھی پیمان وفا چاہتی ہے
یہی دنیا، مرے اجداد کی ٹھکرائی ہوئی
عرفان صدیقی