ٹیگ کے محفوظات: وہ

ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی

دیوان سوم غزل 1268
جی کے لگنے کی میر کچھ کہہ بھی
ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی
حسن اے رشک مہ نہیں رہتا
چار دن کی ہے چاندنی یہ بھی
شور شیریں تو ہے جہاں میں ولے
ہے حلاوت زمانے کی وہ بھی
اس کے پنجے سے دل نکل نہ سکا
زور بیٹھی ہی یار کی گہ بھی
اس زمیں گرد میرے مہ سا نہیں
آسماں پر اگرچہ ہے مہ بھی
کیا کہوں اس کی زلف بن رو رو
میں پراگندہ دل گیا بہ بھی
مضطرب ہو جو ہمرہی کی میر
پھر کے بولا کہ بس کہیں رہ بھی
میر تقی میر

جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے

دیوان دوم غزل 1008
ہے جنبش لب مشکل جب آن کے وہ بیٹھے
جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے
جی ڈوب گئے اپنے اندوہ کے دریا میں
وے جوش کہاں اب ہم مدت ہوئی وہ بیٹھے
کیا رنگ میں شوخی ہے اس کے تن نازک کی
پیراہن اگر پہنے تو اس پہ بھی تہ بیٹھے
سر گل نے اٹھایا تھا اس باغ میں سو دیکھا
کیا ناز سے یاں کوئی کج کرکے کلہ بیٹھے
مرتے ہوئے پر چاہت ظاہر نہ کی اگلوں نے
بے حوصلہ تھے ہم جو اس راز کو کہہ بیٹھے
کیا جانے کہ ایدھر کا کب قصد کرے گا وہ
پامال ہوئے ہم تو اس سے سررہ بیٹھے
جو ہاتھ چڑھا اس کے دل خوں ہی کیا اس کا
اس پنجۂ رنگیں کی اے میر نہ گہ بیٹھے
میر تقی میر