ٹیگ کے محفوظات: وصّال

اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں

دیوان چہارم غزل 1444
ضعف دماغ سے کیا پوچھو ہو اب تو ہم میں حال نہیں
اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں
گاہے گاہے اس میں ہم نے منھ اس مہ کا دیکھا تھا
جیسا سال کہ پر کا گذرا ویسا بھی یہ سال نہیں
بالوں میں اس کے دل الجھا تھا خوب ہوا جو تمام ہوا
یعنی گیا جب پیچ سے جی ہی تب پھر کچھ جنجال نہیں
ایسی متاع قلیل کے اوپر چشم نہ کھولیں اہل نظر
آنکھ میں آوے جو کچھ ہووے دنیا اتنی مال نہیں
سرو چماں کو سیر کیا تھا کبک خراماں دیکھ لیا
اس کا سا انداز نہ پایا اس کی سی یہ چال نہیں
دل تو ان میں پھنس جاتا ہے جی ڈوبے ہے دیکھ ادھر
چاہ زنخ گو چاہ نہیں ہے بال اس کے گو جال نہیں
کب تک دل کے ٹکڑے جوڑوں میر جگر کے لختوں سے
کسب نہیں ہے پارہ دوزی میں کوئی وصّال نہیں
میر تقی میر

ہوا جی زلف و کاکل کے لیے جنجال مت پوچھو

دیوان سوم غزل 1229
غریب شہر خوباں ہوں مرا کچھ حال مت پوچھو
ہوا جی زلف و کاکل کے لیے جنجال مت پوچھو
دل صد پارہ کو پیوند کرتا ہوں جدائی میں
کرے ہے کہنہ نسخہ وصل جوں وصّال مت پوچھو
جگر جل کر ہوا ہے کوئلہ بیتاب تو بھی ہوں
طپش سے دل کی میرے سر پہ ہے دھمال مت پوچھو
تعجب ہے کہ دل اس گنج سرگشتہ میں رہتا ہے
خرابے جس سے یہ پاتے ہیں مالامال مت پوچھو
لگا جی اس کی زلفوں سے بہت ہم میر پچھتائے
ہوا ہے مدعی ایک ایک اپنا بال مت پوچھو
میر تقی میر