ٹیگ کے محفوظات: نیام

خامشی میں پیام ہوتے ہیں

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں
راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
خار مے نوش ہیں کسے معلوم
آبلے مثلِ جام ہوتے ہیں
دل کی آواز کوئی سُن لیتا
صاحبِ گوش، عام ہوتے ہیں
اٹھ رہے ہیں غلاف پلکوں کے
حادثے بے نیام ہوتے ہیں
زیست میں زہر گھولنے والے
کس قدر خوش کلام ہوتے ہیں
مُسکرا کر نگاہ ڈوب گئی
اس طرح بھی سلام ہوتے ہیں
کس قدر خود نظر ہیں دیوانے
اجنبی بن کے عام ہوتے ہیں
شکیب جلالی

یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 17
ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی
یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز
وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی
یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم
کبھی حیات کبھی مَے حرام ہوتی رہی
جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیض لُٹ کے یاروں سے
تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی
فیض احمد فیض