ٹیگ کے محفوظات: نن

کہاں کہاں نہ مِرے دِل نے داغ چُن کے لیے

تَرَس رہی ہے محبّت صدائے کُن کے لیے
کہاں کہاں نہ مِرے دِل نے داغ چُن کے لیے
یہ بے نیازیِ منزل ہے چشمِ حیراں کی
میں کیا رہینِ سفَر ہُوں سفَر کی دُھن کے لیے
کبھی نہ پُوچھا یہ بادِ صَبا کے جھونکوں نے
کوئی پیام اگر بھیجنا ہو اُن کے لیے
نہ پا سکا کہیِں نَشو و نُما نہالِ خلوص
نہ سازگار فضا پائی بیخ و بُن کے لیے
یہ تجربات و حوادث ہیں زینتِ قرطاس
کہیِں سے پڑھ کے لیے ہیں نہ ہم نے سُن کے لیے
نَظَر جُھکی ہی رہی پیشِ قلب و رُوح سَدا
سکونِ زیست کی خواہش بہت کی اُن کے لیے
سجی ہے انجمنِ زیست غالباً ضامنؔ
دِل و دماغ کی تکرارِ کُن مَکُن کے لیے
ضامن جعفری

کبھی ہماری بات بھی سن

تنہا عیش کے خواب نہ بن
کبھی ہماری بات بھی سن
تھوڑا غم بھی اُٹھا پیارے
پھول چنے ہیں خار بھی چن
سکھ کی نیندیں سونے والے
محرومی کے راگ بھی سن
تنہائی میں تیری یاد
جیسے ایک سریلی دُھن
جیسے چاند کی ٹھنڈی لو
جیسے کرنوں کی کن من
جیسے جل پریوں کا ناچ
جیسے پائل کی جھن جھن
ناصر کاظمی

نن

وہ میری ہم سبق

زمین پر جو ایک آسمانی رُوح کی طرح سفر میں ہے

سفید پیرہن،گلے میں نقرئی صلیب

ہونٹ___مستقل دُعا!

میں اُس کو ایسے دیکھتی تھی جیسے ذرہ آفتاب کی طرف نظر اُٹھائے! پر____یہ کل کا ذکر ہے

کہ جب میں اپنے بازؤوں پہ سر رکھے

ترے لیے بہت اُداس تھی

تو وہ مرے قریب آئی

اور مجھ سے کیٹس کے لکھے ہُوئے کسی خیال تک رسائی چاہنے لگی

سو مَیں نے اُس کو شاعرِ جمال کی شریک خواب،فینی،کا پتہ دیا

مگر وہ میری بات سُن کے سادگی سے بولی:

’پیار کس کو کہتے ہیں ؟،

میں لمحہ بھر کو گُنگ رہ گئی!

دماغ سوچنے لگا

یہ کتنی بدنصیب ہے

جو چاہتوں کی لذتوں سے بے خبر ہے

میں نے اُس کی سمت پھر نگاہ کی

اور اُس سمے

مُجھے مری محبیتں تمام تر دُکھوں کے ساتھ یاد آ گئیں

محبتوں کے دُکھ___عظیم دُکھ!

مُجھے لگا

کہ جیسے ذرہ___آفتاب کے مقابلے میں بڑھ گیا

پروین شاکر