ٹیگ کے محفوظات: نبرد

سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا

دیوان اول غزل 136
کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا
بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں
پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا
قصد طریق عشق کیا سب نے بعد قیس
لیکن ہوا نہ ایک بھی اس رہ نورد سا
حاضر یراق بے مزگی کس گھڑی نہیں
معشوق کچھ ہمارا ہے عاشق نبرد سا
کیا میر ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا
نمناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا
میر تقی میر

ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 24
آخرِکار سمیٹیں گے اسے اہلِ نبرد
ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
ایک ہی جور پہ انداز دگر برپا ہے
مژدہ کیا لائے کہیں سے بھی ترا شہر نورد
موسموں کا یہ بدلنا بھی مقدر ٹھہرا
زرد سے سبز کبھی اور کبھی سبز سے زرد
جان دینے سے بھی آگے کا کوئی معرکہ ہو
طے کرے جو میرے اس مثبت و منفی کی نبرد
آفتاب اقبال شمیم