ٹیگ کے محفوظات: نامحظوظ

کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نامحظوظ

دیوان پنجم غزل 1644
لطف جوانی کے ساتھ گئے پیری نے کیا ہے کیا محظوظ
کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نامحظوظ
رونے کڑھنے کو عیش کہو ہو ہم تو تمھارے دعاگو ہیں
یوں ہی ہمیشہ عشق میں اس کے رکھے ایسا خدا محظوظ
زردی منھ کی اشک کی سرخی دونوں اب تو رنگ پہ ہیں
شاید میر بہت رہتے ہو اس سے ہو کے جدا محظوظ
میر تقی میر

ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نامحظوظ

دیوان چہارم غزل 1410
عشق ہمارا جی مارے ہے ہم ناداں ہیں کیا محظوظ
ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نامحظوظ
پانی منھ میں بھر آتا تھا اس کے عقیق لب دیکھے
اب ہے تشنہ کام جدائی میر وگرنہ تھا محظوظ
میر تقی میر