چھیڑ کر! مضرابِ مژگانِ صَنَم! اِس ساز سے
ربط ہے، ہم سے سِوا، دل کو نگاہِ ناز سے
شکوَہِ بندِ قَفَس نے کچھ گِلہ صیّاد سے
ہے شکایت ہم کو اپنی قوّتِ پرواز سے
با نگاہِ بے خطا، بے جنبشِ لب گفتگو
حالِ دل وہ پوچھتے بھی ہیں تَو کس انداز سے
تا نہ شرمندہ ہَوں وہ، چُپ ہُوں ، اگر نالے کروں
عہدِ رفتہِکھنچ کے لَوٹ آئے مری آواز سے
دیکھنا پابندِ الفت کی ذرا مجبوریاں
چارہ جوئی مرغِ دل کرتا ہے تیر انداز سے
نالہِ دل پر ہیں رَقصاں اَب بھی ماضی کے نقوش
ہے عجب جھنکار پیدا ساز کی آواز سے
شکوہِ جَور و جفا ہو محو جُوں حرفِ غَلَط
دیکھ لو ضامنؔ کو اِک بار اَور اُسی انداز سے
ضامن جعفری