ٹیگ کے محفوظات: منظور

تو مجھ سے میں تجھ سے دُور

دیکھ محبت کا دستور
تو مجھ سے میں تجھ سے دُور
تنہا تنہا پھرتے ہیں
دل ویراں آنکھیں بے نور
دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لیے جاتا ہے دُور
ہم اپنا غم بھول گئے
آج کسے دیکھا مجبور
دل کی دھڑکن کہتی ہے
آج کوئی آئے گا ضرور
کوشش لازم ہے پیارے
آگے جو اُس کو منظور
سورج ڈوب چلا ناصر
اور ابھی منزل ہے دُور
ناصر کاظمی

آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
اُن دنوں اُس خاک پر بارش تھی جیسے نُور کی
آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی
چکھ سکے اُس سے نہ کچھ ہم پر نشہ دیتی رہی
ہاں نظر کی شاخ پر اِک بیل تھی انگور کی
حُسن کے مدِّ مقابل عشق!! اور بے چارگی؟
دل میں ہے تصویر جیسے محفل بے نُور کی
ابر مانگا تھا کہ آندھی لے اڑی برگ و ثمر!
خوب اے موجِ ہوا! کلفت ہماری دور کی
شاخ ہی سُوکھی تو پھر جھڑنے سے کیا انکار تھا
کیا کہیں آخر یہ صورت کس طرح منظور کی
اَب جراحت ہی سے ممکن ہے مداوا درد کا
اور ہی صورت ہے محرومی کے اِس ناسور کی
کھولنے پائے نہ اُس پر ہم لبِ اظہار تک
یُوں حقیقت کھُل گئی ماجدؔ دلِ رنجُور کی
ماجد صدیقی

منظور

جب اسے ہسپتال میں داخل کیا گیا تو اس کی حلات بہت خراب تھی۔ پہلی رات اسے آکسیجن پر رکھا گیا۔ جو نرس ڈیوٹی پر تھی، اس کا خیال تھا کہ یہ نیا مریض صبح سے پہلے پہلے مر جائے گا۔ اس کی نبض کی رفتار غیریقینی تھی۔ کبھی زور زور سے پھڑپھڑاتی اور کبھی لمبے لمبے وقفوں کے بعد چلتی تھی۔ پسینے میں اس کا بدن شرابور تھا، ایک لحظے کے لیے بھی اسے چین نہیں ملتاتھا۔ کبھی اس کروٹ لیٹتا، کبھی اس کروٹ۔ جب گھبراہٹ بہت زیادہ بڑھ جاتی تو اٹھ کر بیٹھ جاتا اور لمبے لمبے سانس لینے لگتا۔ رنگ اس کا ہلدی کی گانٹھ کی طرح زرد تھا۔ آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں۔ ناک کا بانسا برف کی ڈلی۔ سارے بدن پررعشہ تھا۔ ساری رات اس نے بڑے شدید کرب میں کاٹی۔ آکسیجن برابر دی جارہی تھی، صبح ہوئی تو اسے کسی قدر افاقہ ہوا اور وہ نڈھال ہو کر سو گیا۔ اس کے دو تین عزیز آئے۔ کچھ دیر بیٹھے رہے اور چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتا دیا تھا کہ مریض کو دل کا عارضہ ہے جسے

’’کورونری تھرمبوس‘‘

کہتے ہیں۔ یہ بہت مہلک ہوتا ہے۔ جب وہ اٹھا تو اسے ٹیکے لگا دیے گئے۔ اس کے بدل میں بدستور میٹھا میٹھا درد ہورہا تھا۔ شانوں کے پٹھے اکڑے ہوئے تھے جیسے رات بھر انھیں کوئی کوٹتارہا تھا۔ جسم کی بوٹی بوٹی دکھ رہی تھی مگر نقاہت کے باعث وہ بہت زیادہ تکلیف محسوس نہیں کررہا تھا۔ ویسے اس کو یقین تھا کہ اس کی موت دور نہیں، آج تو نہیں کل ضرور مر جائے گا۔ اس کی عمربتیس کے قریب تھی۔ ان برسوں میں اس نے کوئی راحت نہیں دیکھی تھی جو اس وقت اسے یاد آتی اور اس کی صعوبت میں اضافہ کرتی۔ اس کے ماں باپ اس کو بچپن ہی میں داغ مفارقت دے گئے تھے۔ معلوم نہیں اس کی پرورش کس خاص شخص نے کی تھی۔ بس وہ ایسے ہی ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھاتا اس عمر تک پہنچ گیا اور ایک کارخانے میں ملازم ہو کر پچیس روپے ماہوار پر انتہا درجے کی افلاس زدہ زندگی گزار رہا تھا۔ دل میں ٹیسیں نہ اٹھتیں تو وہ اپنی تندرتی اور بیماری میں کوئی نمایاں فرق محسوس نہ کرتا۔ کیونکہ صحت اس کی کبھی بھی اچھی نہیں تھی۔ کوئی نہ کوئی عارضہ اسے ضرور لاحق رہتا تھا۔ شام تک اسے چار ٹیکے لگ چکے تھے۔ آکسیجن ہٹا لی گئی تھی۔ دل کا درد کسی قدر کم تھا، اس لیے وہ ہوش میں تھا اور اپنے گردوپیش کا جائزہ لے سکتا تھا۔ وہ بہت بڑے وارڈ میں تھا جس میں اس کی طرح اور کئی مریض لوہے کی چارپائیوں پر لیٹے تھے۔ نرسیں اپنے کام میں مشغول تھیں۔ اس کے داہنے ہاتھ نو دس برس کا لڑکا کمبل میں لپٹا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

’’السلام علیکم۔ ‘‘

لڑکے نے بڑے پیار سے کہا۔ نئے مریض نے اس کے پیار بھرے لہجے سے متاثر ہو کر جواب دیا۔

’’وعلیکم السلام۔ ‘‘

لڑکے نے کمبل میں کروٹ بدلی۔

’’بھائی جان! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘

نئے مریض نے اختصار سے کہا۔

’’اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘

لڑکے کا چہرہ اور زیادہ تمتما اٹھا۔

’’آپ بہت جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔ آپ کا نام کیا ہے؟‘‘

’’میرا نام!‘‘

نئے مریض نے مسکرا کر لڑکے کی طرف برادرانہ شفقت سے دیکھا۔

’’میرا نام اختر ہے۔ ‘‘

’’میرا نام منظور ہے۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک دم کروٹ بدلی اور اس نرس کو پکارا جو ادھر سے گزر رہی تھی۔

’’آپ۔ آپا جان۔ ‘‘

نرس رک گئی۔ منظور نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سلام کیا۔ نرس قریب آئی اور اسے پیار کرکے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد اسسٹنٹ ہاؤس سرجن آیا۔ منظور نے اس کو بھی سلام کیا۔

’’ڈاکٹر جی، السلام علیکم۔ ‘‘

ڈاکٹر سلام کا جواب دے کر اس کے پاس بیٹھ گیا اور دیر تک اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس سے باتیں کرتا رہا جو ہسپتال کے بارے میں تھیں۔ منظور کو اپنے وارڈ کے ہر مریض سے دلچسپی تھی۔ اس کو معلوم تھا کس کی حالت اچھی ہے اور کس کی حالت خراب ہے۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے۔ سب نرسیں اس کی بہنیں تھی اور سب ڈاکٹر اس کے دوست۔ مریضوں میں کوئی چچا تھا، کوئی ماموں اور کوئی بھائی۔ سب اس سے پیار کرتے تھے۔ اس کی شکل و صورت معمولی تھی۔ مگر اس میں غیر معمولی کشش تھی۔ ہر وقت اس کے چہرے پر تمتماہٹ کھیلتی رہتی جو اس کی معصومیت پر ہالے کا کام دیتی تھی۔ وہ ہر وقت خوش رہتا تھا۔ بہت زیادہ باتونی تھا، مگر اختر کو حالانکہ وہ دل کا مریض تھا اور اس مرض کے باعث بہت چڑچڑا ہو گیا تھا، اس کی یہ عادت کھلتی نہیں تھی۔ چونکہ اس کا بستر اختر کے بستر کے پاس تھا اس لیے وہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اس سے گفتگو شروع کردیتا تھا جو چھوٹے چھوٹے معصوم جملوں پر مشتمل ہوتی تھی:

’’بھائی جان! آپ کے بھائی بہن ہیں؟‘‘

’’میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کے دل میں اب درد تو نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘

’’مجھے معلوم نہیں دل کا درد کیسا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ دودھ زیادہ پیا کریں!‘‘

’’میں بڑے ڈاکٹر جی سے کہوں، وہ آپ کو مکھن بھی دیا کریں گے۔ ‘‘

بڑا ڈاکٹر بھی اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ صبح جب راؤنڈ پر آتا تو کرسی منگا کر اس کے پاس تھوڑی دیر تک ضرور بیٹھتا اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہتا۔ اس کا باپ درزی تھا۔ دوپہر کو پندرہ بیس منٹ کے لیے آتا۔ سخت افراتفری کے عالم میں اس کے لیے پھل وغیرہ لاتا اور جلدی جلدی اسے کھلا کر اور اس کے سر پر محبت کا ہاتھ پھیر کر چلا جاتا۔ شام کو اس کی ماں آتی اور برقع اوڑھے دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ اختر نے اسی وقت اس سے دلی رشتہ قائم کرلیا تھا، جب اس نے اس کو سلام کیا تھا۔ اس سے باتیں کرنے کے بعد یہ رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ دوسرے دن رات کی خاموشی میں جب اسے سوچنے کا موقع ملا تو اس نے محسوس کیا۔ اس کو جو افاقہ ہوا ہے، منظور ہی کا معجزہ ہے۔ ڈاکٹر جواب دے چکے تھے۔ وہ صرف چند گھڑیوں کا مہمان تھا۔ منظور نے اس کو بتایا تھا کہ جب اسے بستر پرلٹایا گیا تھا تو اس کی نبض قریب قریب غائب تھی۔ اس نے دل ہی دل میں کئی مرتبہ دعا مانگی تھی کہ خدا اس پر رحم کرے۔ یہ اس کی دعا ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ مرتے مرتے بچ گیا۔ لیکن اسے یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے گا، اس لیے کہ اس کا مرض بہت مہلک تھا۔ بہر حال اب اس کے دل میں اتنی خواہش ضرور پیدا ہو گئی تھی کہ وہ کچھ دن زندہ رہے تاکہ منظورسے اس کا رشتہ فوراً نہ ٹوٹ جائے۔ دو تین روز گزر گئے۔ منظور حسب معمول سارا دن چہکتا رہتا تھا۔ کبھی نرسوں سے باتیں کرتا، کبھی ڈاکٹروں سے، کبھی جمعداروں سے۔ یہ بھی اس کے دوست تھے۔ اختر کو تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وارڈ کی بدبو دار فضا کا ہر ذرہ اس کا دوست تھے۔ وہ جس شے کی طرف دیکھتا تھا، فوراً اس کی دوست بن جاتی تھی۔ دو تین روز گزرنے کے بعد جب اخترکو معلوم ہوا کہ منظور کا نچلا دھڑ مفلوج ہے تو اسے سخت صدمہ پہنچا۔ لیکن اس کو حیرت بھی ہوئی کہ اتنے بڑے نقصان کے باوجود وہ خوش کیونکر رہتا ہے۔ باتیں جب اس کے منہ سے بلبلوں کے مانند نکلتی تھیں تو انھیں سن کر کون کہہ سکتا تھا کہ اس کا نچلا دھڑ گوشت پوست کا بے جان لوتھڑا ہے۔ اختر نے اس سے اس کے فالج کے متعلق کوئی بات نہ کی۔ اس لیے کہ اس سے ایسی بات کے متعلق پوچھنا بہت بڑی حماقت ہوتی، جس سے وہ قطعاً بے خبر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اسے کسی ذریعے سے معلوم ہو گیا کہ منظور ایک دن جب کھیل کود کر واپس آیا تو اس نے ٹھنڈے پانی سے نہا لیا جس کے باعث ایک دم اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔ ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا، انھیں بہت دکھ ہوا۔ شروع شروع میں حکیموں کا علاج کرایا مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔ پھر ٹونے ٹوٹکوں کا سہارا لیا مگر بے سود۔ آخر کسی کے کہنے پر انھوں نے اسے ہسپتال میں داخل کرا دیا تاکہ باقاعدگی سے اس کا علاج ہوتا رہے۔ ڈاکٹر مایوس تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کے جسم کا مفلوج حصہ کبھی درست نہ ہو گا مگر پھر بھی اس کے والدین کا جی رکھنے کے لیے وہ اس کا علاج کررہے تھے۔ انھیں حیرت تھی کہ وہ اتنی دیر زندہ کیسے رہا ہے۔ اس لیے کہ اس پر فالج کا حملہ بہت شدید تھا، جس نے اس کے جسم کا نچلا حصہ بالکل ناکارہ کرنے کے سوا اس کے بدن کے بہت سے نازک اعضا جھنجھوڑ کر رکھ دیے تھے۔ وہ اس پر ترس کھاتے تھے اور اس سے پیار کرتے تھے، اس لیے کہ اس نے سدا خوش رہنے کا گر اپنی اس شدید علالت سے سیکھا تھا۔ اس کے معصوم دماغ نے یہ طریقہ خود ایجاد کیا تھا کہ اس کا دکھ دب جائے۔ اختر پرپھر ایک دورہ پڑا۔ یہ پہلے دورے سے کہیں زیادہ تکلیف دہ اور خطرناک تھا مگر اس نے صبر اور تحمل سے کام لیا اور منظور کی مثال سامنے رکھ کر اپنے دکھ درد سے غافل رہنے کی کوشش کی جس میں اسے کامیابی ہوئی، ڈاکٹروں کو اس مرتبہ تو سو فی صدی یقین تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں بچا سکتی، مگر معجزہ رونما ہوا اور رات کی ڈیوٹی پر متعین نرس نے صبح سویرے اسے دوسری نرسوں کے سپرد کیا تو اس کی گرتی ہوئی نبض سنبھل چکی تھی۔ وہ زندہ تھا۔ موت سے کشتی لڑتے لڑتے نڈھال ہو کر جب وہ سونے لگا تو اس نے نیم مندی ہوئی آنکھوں سے منظور کی دیکھا جو محو خواب تھا۔ اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اختر نے اپنے کمزور اور نحیف دل میں اس کی پیشانی کو چوما اور سو گیا۔ جب اٹھا تومنظور چہک رہا تھا۔ اسی کے متعلق ایک نرس سے کہہ رہا تھا۔

’’آپا، اختر بھائی جان کو جگاؤ۔ دوا کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’سونے دو۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’نہیں۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ انھیں دوا دیجیے۔ ‘‘

’’اچھا دے دوں گی۔ ‘‘

منظور نے جب اختر کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ بہت خوش ہو کربآواز بلند کہا۔

’’السلام علیکم!‘‘

اختر نے نقاہت بھرے لہجے میں جواب دیا۔

’’وعلیکم السلام!‘‘

’’بھائی جان! آپ بہت سوئے۔ ‘‘

’’ہاں۔ شاید۔ ‘‘

’’نرس آپ کے لیے دوا لارہی ہے۔ ‘‘

اختر نے محسوس کیا کہ منظور کی باتیں اس کے نحیف دل کو تقویت پہنچا رہی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ خود اسی کی طرح چہکنے چہکارنے لگا۔ اس نے منظور سے پوچھا۔

’’اس مرتبہ بھی تم نے میرے لیے دعا مانگی تھی؟‘‘

منظور نے جواب دیا۔

’’نہیں۔ ‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں روز روز دعائیں نہیں مانگا کرتا۔ ایک دفعہ مانگ لی، کافی تھی۔ مجھے معلوم تھا آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘

اس کے لہجے میں یقین تھا۔ اختر نے اسے ذرا سا چھیڑنے کے لیے کہا۔

’’تم دوسروں سے کہتے رہتے ہو کہ ٹھیک ہو جاؤ گے، خودکیوں نہیں ٹھیک ہو کر گھر چلے جاتے۔ ‘‘

منظور نے تھوڑی دیر سوچا۔

’’میں بھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ بڑے ڈاکٹر جی کہتے تھے کہ تم ایک مہینے تک چلنے پھرنے لگو گے۔ دیکھیے نا اب میں نیچے اور اوپر کھسک سکتا ہوں۔ ‘‘

اس نے کمبل میں اوپر نیچے کھسکنے کی ناکام کوشش کی۔ اختر نے فوراً کہا۔

’’واہ منظور میاں واہ۔ ایک مہینہ کیا ہے۔ یوں گزر جائے گا۔ ‘‘

منظور نے چٹکی بجائی اور خوش ہو کر ہنسنے لگا۔ ایک مہینے سے زیادہ عرصہ گزر گیا۔ اس دوران میں ا خترپر دل کے دو تین دورے پڑے جو زیادہ شدید نہیں تھے۔ اب اس کی حالت بہتر تھی، نقاہت دور ہورہی تھی۔ اعصاب میں پہلا سا تناؤ بھی نہیں تھا۔ دل کی رفتار ٹھیک تھی۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ لیکن ان کا تعجب بدستور قائم تھا کہ وہ بچ کیسے گیا۔ اختر دل ہی دل میں ہنستا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بچانے والا کون ہے۔ وہ کوئی انجکشن نہیں تھا۔ کوئی دوائی ایسی نہیں تھی۔ وہ منظور تھا۔ مفلوج منظور، جس کا نچلا دھڑ بالکل ناکارہ ہو چکا تھا، جسے یہ خوش فہمی تھی کہ اسے کے گوشت پوست کے بے جان لوتھڑے میں زندگی کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ اختر اور منظور کی دوستی بہت بڑھ گئی تھی۔ منظور کی ذات اس کی نظروں میں مسیحا کا رتبہ رکھتی تھی کہ اس نے اس کو دوبارہ زندگی عطا کی تھی اور اس کے دل و دماغ سے وہ تمام کالے بادل ہٹا دیے تھے جن کے سائے میں وہ اتنی دیر تک گھٹی گھٹی زندگی بسرکرتا رہا تھا۔ اس کی قنوطیت رجائیت میں تبدیل ہو گئی تھی، اسے زندہ رہنے سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ بالکل ٹھیک ہو کر ہسپتال سے نکلے اور ایک نئی صحت مند زندگی بسر کرنی شروع کردے۔ اسے بڑی الجھن ہوتی تھی جب وہ دیکھتا تھا کہ منظور ویسے کا ویسا ہے۔ اس کے جسم کے مفلوج حصے پر ہر روز مالش ہوتی تھی۔ جوں جوں وقت گزرتا تھا، اس کی خوش رہنے والی طبیعت شگفتہ شگفتہ تر ہورہی تھی۔ یہ بات حیرت اور الجھن کا باعث تھی۔ ایک دن بڑے ڈاکٹر نے منظور کے باپ سے کہا کہ اب وہ اسے گھر لے جائے کیوں کہ اس کا علاج نہیں ہوسکتا۔ منظور کو صرف اتنا پتہ چلا کہ اب اس کا علاج ہسپتال کے بجائے گھر پر ہو گا اور بہت ٹھیک ہو جائے گا، مگر اسے سخت صدمہ پہنچا۔ وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا۔ اختر نے جب اس سے پوچھا کہ وہ ہسپتال میں کیوں رہنا چاہتا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’وہاں اکیلا رہوں گا۔ ابا دکان پر جاتا ہے، ماں ہمسائی کے ہاں جا کر کپڑے سیتی ہے، میں وہاں کس سے کھیلا کروں گا، کس سے باتیں کروں گا۔ ‘‘

اختر نے بڑے پیار سے کہا۔

’’تم اچھے جو ہو جاؤ گے منظور میاں۔ چند دن کی بات ہے پھر تم باہر اپنے دوستوں سے کھیلا کرنا۔ اسکول جایا کرنا۔ ‘‘

‘‘

نہیں نہیں۔ ‘‘

منظور نے کمبل سے اپنا سدا تمتمانے والا چہرہ ڈھانپ کر رونا شروع کردیا۔ اختر کو بہت دکھ ہوا۔ دیر تک وہ اسے چمکارتا پچکارتا رہا۔ آخر اس کی آواز گلے میں رندھ گئی اور اس نے کروٹ بدل لی۔ شام کو ہاؤس سرجن نے اختر کو بتایا کہ بڑے ڈاکٹر نے اس کی ریلیز کا آرڈر دے دیا ہے۔ وہ صبح جا سکتا ہے۔ منظور نے سنا تو بہت خوش ہوا۔ اس نے اتنی باتیں کیں، اتنی باتیں کیں کہ تھک گیا۔ ہر نرس کو، ہر اسٹوڈنٹ کو، ہر جمعدارکو اس نے بتایا کہ بھائی جان اختر جارہے ہیں۔ رات کو بھی وہ اختر سے دیر تک خوشی سے بھرپور ننھی ننھی معصوم باتیں کرتا رہا۔ آخر سو گیا۔ اختر جاگتا رہا اور سوچتا رہا کہ منظور کب تک ٹھیک ہو گا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی دوا موجود نہیں جو اس پیارے بچے کو تندرست کردے۔ اس نے اس کی صحت کے لیے صدق دل سے دعائیں مانگیں مگر اسے یقین تھا کہ یہ قبول نہیں ہوں گی، اس لیے کہ اس کا دل منظور کا سا پاک دل کیسے ہو سکتا تھا۔ منظور اور اسکی جدائی کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے بہت دکھ ہوتا تھا۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ صبح اس کو وہ چھوڑ کر چلا جائے گا اور اپنی نئی زندگی تعمیر کرنے میں مصروف ہو کر اسے اپنے دل و دماغ سے محو کردے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ منظور کی

’’السلام علیکم‘‘

سننے سے پہلے ہی مر جاتا۔ یہ نئی زندگی جو اس کی عطا کردہ تھی، وہ کس منہ سے اٹھا کر ہسپتال سے باہر لے جائے گا۔ سوچتے سوچتے اختر سو گیا۔ صبح دیر سے اٹھا۔ نرسیں وارڈ میں ادھر ادھر تیزی سے چل پھر رہی تھیں۔ کروٹ بدل کر اس نے منظور کی چارپائی کی طرف دیکھا۔ اس پر اس کی بجائے ایک بوڑھا، ہڈیوں کا ڈھانچہ، لیٹا ہوا تھا۔ ایک لحظے کے لیے اختر پر سناٹا سا طاری ہو گیا۔ ایک نرس پاس سے گزر رہی تھی، اس سے اس نے قریب قریب چلا کر پوچھا۔

’’منظور کہاں ہے۔ ‘‘

نرس رکی۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے بڑے افسوسناک لہجے میں جواب دیا۔

’’بیچارہ! صبح ساڑھے پانچ بجے مر گیا۔ ‘‘

یہ سن کر اختر کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ اس نے سمجھا کہ یہ آخری دورہ ہے۔ مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی اسے ہسپتال سے رخصت ہونا پڑا۔ کیونکہ اس کی جگہ لینے والا مریض داخل کرلیا گیا تھا۔

سعادت حسن منٹو

پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو

دیوان پنجم غزل 1705
اپنے حسن رفتنی پر آج مت مغرور ہو
پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو
دیکھ کر وہ راہ چلتا ہی نہیں ٹک ورنہ ہم
پائوں اس کے آنکھوں پر رکھ لیویں جو منظور ہو
شہر دل کی کیا خرابی کا بیاں باہم کریں
اس کو ویرانہ نہ کہیے جو کبھو معمور ہو
ہم بغل اس سنگ دل سے کاشکے اس دم ہوں جب
شیشۂ مے پاس ہووے اور وہ مخمور ہو
عشق دلکش ذبح ہے پر کھیل قدرت کا ہے میر
صرف کریے اس میں اپنا جس قدر مقدور ہو
میر تقی میر

کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں

دیوان چہارم غزل 1465
کس سے مشابہ کیجے اس کو ماہ میں ویسا نور نہیں
کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں
شعر ہمارے عالم کے ہر چار طرف کیا دوڑے ہیں
کس وادی آبادی میں یہ حرف و سخن مشہور نہیں
ہم دیکھیں تو دیکھیں اسے پھر پردہ بہتر ہے یعنی
اور کریں نظارہ اس کا ہم کو یہ منظور نہیں
عزت اپنی تہی دستی میں رکھ لی خدا نے ہزاروں شکر
قدر ہے دست قدرت سے یاں حیف ہمیں مقدور نہیں
راہ دور عدم سے آئے بستی جان کے دنیا میں
سویاں گھر اوجڑ ہیں سارے اک منزل معمور نہیں
عشق و جنوں سے اگرچہ تن پر ضعف و نحافت ہے لیکن
وحشت گو ہو عرصۂ محشر مجنوں سے رنجور نہیں
ہجراں میں بھی برسوں ہم نے میر کیا ہے پاس وفا
اب جو کبھو ٹک پاس بلا لے ہم کو وہ تو دور نہیں
میر تقی میر

جوانی دوانی ہے مشہور ہے

دیوان دوم غزل 1035
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے
جوانی دوانی ہے مشہور ہے
کہو چشم خوں بار کو چشم تم
خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے
فلک پر جو مہ ہے تو روشن ہے یہ
کہ منھ سے ترے نسبت دور ہے
گدا شاہ دونوں ہیں دل باختہ
عجب عشق بازی کا دستور ہے
قیامت ہے ہو گا جو رفع حجاب
نہ بے مصلحت یار مستور ہے
ہم اب ناتوانوں کو مرنا ہے صرف
نہیں وہ کہ جینا بھی منظور ہے
ستم میں ہماری قسم ہے تمھیں
کرو صرف جتنا کہ مقدور ہے
نیاز اپنا جس مرتبے میں ہے یاں
اسی مرتبے میں وہ مغرور ہے
ہوا حال بندے کا گو کچھ خراب
خدائی ابھی اس کی معمور ہے
گیا شاید اس شمع رو کا خیال
کہ اب میر کے منھ پہ کچھ نور ہے
میر تقی میر

ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا

دیوان دوم غزل 694
اس قدر آنکھیں چھپاتا ہے تو اے مغرور کیا
ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا
وصل و ہجراں سے نہیں ہے عشق میں کچھ گفتگو
لاگ دل کی چاہیے ہے یاں قریب و دور کیا
ہو خرابی اور آبادی کی عاقل کو تمیز
ہم دوانے ہیں ہمیں ویران کیا معمور کیا
اٹھ نہیں سکتا ترے در سے شکایت کیا مری
حال میں اپنے ہوں عاجز میں مجھے مقدور کیا
سب ہیں یکساں جب فنا یک بارگی طاری ہوئی
ٹھیکرا اس مرتبے میں کیا سر فغفور کیا
لطف کے حرف و سخن پہلے جو تھے بہر فریب
مدتیں جاتی ہیں ان باتوں کا اب مذکور کیا
دیکھ بہتی آنکھ میری ہنس کے بولا کل وہ شوخ
بہ نہیں اب تک ہوا منھ کا ترے ناسور کیا
میں تو دیکھوں ہوں تمھارے منھ کو تم نے دل لیا
تم مجھے رہتے ہو اکثر مجلسوں میں گھور کیا
ابر سا روتا جو میں نکلا تو بولا طنز سے
آرسی جا دیکھ گھر برسے ہے منھ پر نور کیا
سنگ بالیں میر کا جو باٹ کا روڑا ہوا
سخت کر جی کو گیا اس جا سے وہ رنجور کیا
میر تقی میر

زمیں سخت ہے آسماں دور ہے

دیوان اول غزل 545
کرے کیا کہ دل بھی تو مجبور ہے
زمیں سخت ہے آسماں دور ہے
جرس راہ میں جملہ تن شور ہے
مگر قافلے سے کوئی دور ہے
تمناے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
نہ ہو کس طرح فکر انجام کار
بھروسا ہے جس پر سو مغرور ہے
پلک کی سیاہی میں ہے وہ نگاہ
کسو کا مگر خون منظور ہے
دل اپنا نہایت ہے نازک مزاج
گرا گر یہ شیشہ تو پھر چور ہے
کہیں جو تسلی ہوا ہو یہ دل
وہی بے قراری بدستور ہے
نہ دیکھا کہ لوہو تھنبا ہو کبھو
مگر چشم خونبار ناسور ہے
تنک گرم تو سنگ ریزے کو دیکھ
نہاں اس میں بھی شعلۂ طور ہے
بہت سعی کریے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
میر تقی میر

افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا

دیوان اول غزل 69
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا
مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم
بالفعل اب ارادہ تا گور ہے ہمارا
کیا آرزو تھی جس سے سب چشم ہو گئے ہیں
ہر زخم سو جگہ سے ناسور ہے ہمارا
تیں آہ عشق بازی چوپڑ عجب بچھائی
کچی پڑیں ہیں نردیں گھر دور ہے ہمارا
تاچند پشت پا پر شرم و حیا سے آنکھیں
احوال کچھ بھی تم کو منظور ہے ہمارا
بے طاقتی کریں تو تم بھی معاف رکھیو
کیا کیجیے کہ دل بھی مجبور ہے ہمارا
ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میر ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا
میر تقی میر

دل سے ہمیں فرزانہ جانے دیوانہ مشہور کرے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 266
ہم نے اسے محبوب کیا یہ سوچ کے جی میں غرور کرے
دل سے ہمیں فرزانہ جانے دیوانہ مشہور کرے
اس کا نام ہی انتم سر ہے مری صدا کے سرگم کا
اس کے آگے سناٹا ہے کوئی اگر مجبور کرے
حرف میں اپنے جانِ سخن نے دونوں مطلب رکھے ہیں
جب چاہے افسردہ کردے‘ جب چاہے مسرور کرے
کیا کیا طور اسے آتے ہیں دل کو شکیبا رکھنے کے
لغزش پہ ناراض نہ ہو اور خواہش نا منظور کرے
شب کو جو محوِ خوابِ گراں ہو گل ہوں ستارہ چاند چراغ
صبح کو جب وہ جامہ چساں ہو جگ میں نور ظہور کرے
ہم کو تو دلبر خوب ملا خیر اپنی اپنی قسمت ہے
پھر بھی جو کوئی رنج اُٹھانا چاہے عشق ضرور کرے
عرفان صدیقی