ٹیگ کے محفوظات: ملاتے

یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا

نئے چراغ بناتے ہوئے نہیں ڈرتا
یہ عشق چاک گھماتے ہوئے نہیں ڈرتا
مرے وسیلے سے جتنے بھی پیڑ روئے ہیں
انہیں میں ہِیر سناتے ہوئے نہیں ڈرتا
حضور! آپ ہی روکیں کہ میں تو پاگل ہوں
کسی سے ہاتھ ملاتے ہوئے نہیں ڈرتا
ہزار بار بتایا کہ بد شگونی ہے!
مگر وہ ہونٹ چباتے ہوئے نہیں ڈرتا
میں پیٹ کاٹ کے زندہ ہوں اور ڈرتا ہوں
تُو فن کو بیچ کے کھاتے ہوئے نہیں ڈرتا؟
عجیب شوقِ طبیعت ہے افتخار فلکؔ
کوئی بھی آنکھ لڑاتے ہوئے نہیں ڈرتا
افتخار فلک

کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم

دیوان چہارم غزل 1443
صبر بہت تھا ایک سمیں میں جا سے اپنی نہ جاتے ہم
کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
کعبے سے کر نذر اٹھے سو خرج راہ اے وائے ہوئے
ورنہ صنم خانے میں جا زنار گلے سے بندھاتے ہم
ہاتھی مست بھی آوے چلا تو اس سے منھ کو پھیر نہ لیں
پھرتے ہیں سرمست محبت مے ناخوردہ ماتے ہم
ہائے جوانی وہ نہ گلے لگتا تو خشم عشقی سے
نعل جڑی جاتی چھاتی پر گل ہاتھوں پر کھاتے ہم
عشق تو کارخوب ہے لیکن میر کھنچے ہے رنج بہت
کاش کے عالم ہستی میں بے عشق و محبت آتے ہم
میر تقی میر

پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے

دیوان اول غزل 494
تجھ سے دوچار ہو گا جو کوئی راہ جاتے
پھر عمر چاہیے گی اس کو بحال آتے
گر دل کی بے قراری ہوتی یہی جو اب ہے
تو ہم ستم رسیدہ کاہے کو جینے پاتے
وے دن گئے کہ اٹھ کر جاتے تھے اس گلی میں
اب سعی چاہیے ہے بالیں سے سر اٹھاتے
کب تھی ہمیں تمنا اے ضعف یہ کہ تڑپیں
پر زیر تیغ اس کی ہم ٹک تو سر ہلاتے
گر جانتے کہ یوں ہی برباد جائیں گے تو
کاہے کو خاک میں ہم اپنے تئیں ملاتے
شاید کہ خون دل کا پہنچا ہے وقت آخر
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو راتوں کو آتے آتے
اس سمت کو پلٹتی تیری نگہ تو ساقی
حال خراب مجلس ہم شیخ کو دکھاتے
جی دینا دل دہی سے بہتر تھا صدمراتب
اے کاش جان دیتے ہم بھی نہ دل لگاتے
شب کوتہ اور قصہ ان کا دراز ورنہ
احوال میر صاحب ہم تجھ کو سب سناتے
میر تقی میر

میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 23
اتنا تو تعلق کو نبھاتے ہوئے کہتا
میں لوٹ کے آؤں گا وہ جاتے ہوئے کہتا
پہچانو مجھے، میں وہی سورج ہوں تمہارا
کیسے بھلا لوگوں کو جگاتے ہوئے کہتا
یہ صرف پرندوں کے بسیرے کے لیے ہے
آنگن میں کوئی پیڑ لگاتے ہوئے کہتا
ہر شخص مرے ساتھ ’’انا الحق‘‘ سرِ منزل
آواز سے آواز ملاتے ہوئے کہتا
اک موجِ مسلسل کی طرح نقش ہیں میرے
پتھر پہ میں اشکال بناتے ہوئے کہتا
اتنا بھی بہت تھا مری مایوس نظر کو
وہ دور سے کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے کہتا
یہ تیرے عطا کردہ تحائف ہیں میں کیسے
تفصیل مصائب کی بتاتے ہوئے کہتا
موسم کے علاوہ بھی ہو موجوں میں روانی
دریا میں کوئی نظم بہاتے ہوئے کہتا
عادت ہے چراغ اپنے بجھانے کی ہوا کو
کیا اس سے کوئی شمع جلاتے ہوئے کہتا
میں اپنی محبت کا فسانہ اسے منصور
محفل میں کہاں ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا
منصور آفاق