ٹیگ کے محفوظات: مفاہمت

مفاہمت

زندگی کے لیے

اب تمھارا رویہ ،اچانک بہت صلح جُو ہو گیا ہے

(سمندر کی سرکش ہواؤں کو

جُوئے شبستاں کی آہستہ گامی مبارک!)

یہ اچھا شگن ہے

ہوا کے مقابل

اگر پُھول آئے

تو پھر پنکھڑی پنکھڑی

اُجلے بادل کے خوابوں کی صُورت بِکھر جائے گی

سو ایسے میں ،جھکنے میں ہی خیر ہے!

بارشِ سنگ میں

خواب کے شیش محل کو کب تک بچائے رکھیں

اِتنے ہاتھوں میں پتھر ہیں

کوئی تو لگ جائے گا

اور پھر

گُھپ اندھیرے میں کب تک نظر کرچیاں ان کی ڈھونڈے

کیا یہ بہتر نہ ہو گا

کہ ایسی قیامت سے پہلے ہی

ان شیش محلوں کو ہم

مصلحت کی چمکتی ہوئی ریت میں دفن کر دیں

اور پھر خواب بُنتی ہُوئی آنکھ سے معذرت کر لیں !

سو تم نے بھی اب

ایک ہاری ہُوئی قوم کے رہنما کی طرح

اپنے ہتھیار دُشمن کے قدموں میں رکھ کر

نئی دوستی کا لرزتا ہُوا ہاتھ اس کی طرف پھر بڑھایا ہے

اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے

کہ ہتھیار دینے کی اس رسم میں

کیا کروں

تمھاری چمکدار ،متروکہ تلوارکو

بڑھ کے چُوموں

کہ اپنے گلے پر رکھوں ؟

پروین شاکر

فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کر لیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 302
مر گئے ہم، برت ورت کر لیں
فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کر لیں
خواب دفنا کے لوٹ آئے ہیں
اب دعا ہائے مغفرت کر لیں
دائرے میں برے شگون کے، ہم
کیسے معلوم اک جہت کر لیں
کس طرف دوستوں کی منزل ہے
کچھ ہوا سے مشاورت کر لیں
گر چکی ہے زمین پیچھے سے
کس طرح ہم مراجعت کر لیں
من و سلویٰ کی کیا تمنا میں
آسماں سے مفاہمت کر لیں
روگ بنتے ہوئے تعلق سے
یہی بہتر ہے معذرت کر لیں
کوچۂ یار کی مسافت میں
طے حدودِ مسافرت کر لیں
وصل میں اِس لباسِ اطلس کی
ہم ذرا سی مخالفت کر لیں
بے تحاشا کیا ہے خرچ اسے
اب تو دل کی ذرا بچت کر لیں
یہ بھی صورت ہے اک تعلق کی
ہجر سے ہی مطابقت کر لیں
ڈھنگ جینے کا سیکھ لیں ہم بھی
وقت سے کچھ مناسبت کر لیں
طور بھی فتح کر لیں جلوہ بھی
کچھ وسیع اور سلطنت کر لیں
اس نظر کے فریب سے نکلیں
دل سے بھی کچھ مخاصمت کر لیں
کب کہا ہے زبان بندی کا
کلکِ ناخوردہ صرف قط کر لیں
کاٹ دیں راستے، گرا دیں پل
رابطوں سے مفارقت کر لیں
پوچھ لیں کیا کریں مسائل کا
کچھ خدا سے مراسلت کر لیں
جا بسیں قیس کے محلے میں
اک ذرا اپنی تربیت کر لیں
ظلم کا ہے محاصرہ منصور
آخری اب مزاحمت کر لیں
منصور آفاق

مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 21
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا
مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک
میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ
یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
کرے آ کے گفت و شنید مجھ سے کوئی چراغ
کسی شب زدہ کی مشاورت نہیں چاہتا
میں کنارِ آب رواں نہیں شبِ یاد میں
کسی چاندنی سے مناسبت نہیں چاہتا
مجھے موت تیرے محاصرے میں قبول ہے
میں عدو سے کوئی مفاہمت نہیں چاہتا
شبِ ظلم سے میں لڑوں گا آخری وار تک
کوئی ظالموں سے مطابقت نہیں چاہتا
مجھے جلتی کشتیاں دیکھنے کی طلب نہیں
میں مزاحمت میں مراجعت نہیں چاہتا
مرے پاس اب کوئی راستہ نہیں صلح کا
مجھے علم ہے تُو مخالفت نہیں چاہتا
انہیں ’بھوربن‘ کی شکار گاہ عزیز ہے
ترا لشکری کوئی پانی پت نہیں چاہتا
منصور آفاق