ٹیگ کے محفوظات: مغفرت

فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کر لیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 302
مر گئے ہم، برت ورت کر لیں
فاتحہ پڑھ لیں ، تعزیت کر لیں
خواب دفنا کے لوٹ آئے ہیں
اب دعا ہائے مغفرت کر لیں
دائرے میں برے شگون کے، ہم
کیسے معلوم اک جہت کر لیں
کس طرف دوستوں کی منزل ہے
کچھ ہوا سے مشاورت کر لیں
گر چکی ہے زمین پیچھے سے
کس طرح ہم مراجعت کر لیں
من و سلویٰ کی کیا تمنا میں
آسماں سے مفاہمت کر لیں
روگ بنتے ہوئے تعلق سے
یہی بہتر ہے معذرت کر لیں
کوچۂ یار کی مسافت میں
طے حدودِ مسافرت کر لیں
وصل میں اِس لباسِ اطلس کی
ہم ذرا سی مخالفت کر لیں
بے تحاشا کیا ہے خرچ اسے
اب تو دل کی ذرا بچت کر لیں
یہ بھی صورت ہے اک تعلق کی
ہجر سے ہی مطابقت کر لیں
ڈھنگ جینے کا سیکھ لیں ہم بھی
وقت سے کچھ مناسبت کر لیں
طور بھی فتح کر لیں جلوہ بھی
کچھ وسیع اور سلطنت کر لیں
اس نظر کے فریب سے نکلیں
دل سے بھی کچھ مخاصمت کر لیں
کب کہا ہے زبان بندی کا
کلکِ ناخوردہ صرف قط کر لیں
کاٹ دیں راستے، گرا دیں پل
رابطوں سے مفارقت کر لیں
پوچھ لیں کیا کریں مسائل کا
کچھ خدا سے مراسلت کر لیں
جا بسیں قیس کے محلے میں
اک ذرا اپنی تربیت کر لیں
ظلم کا ہے محاصرہ منصور
آخری اب مزاحمت کر لیں
منصور آفاق