ٹیگ کے محفوظات: مسکرائیں

ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھیں تو یہ ہوائیں کبھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
مہک اُٹھیں یہ فضائیں جو لب ہلائیں کبھی
ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھیں تو یہ ہوائیں کبھی
یہ اِن لبوں ہی تلک ہے ابھی ضیا جن کی
بنیں گی نُور کے سوتے یہی صدائیں کبھی
وُہ خوب ہے پہ اُسے اِک ہمیں نے ڈھونڈا ہے
جو ہو سکے تو ہم اپنی بھی لیں بلائیں کبھی
کبھی تو موت کا یہ ذائقہ بھی چکھ دیکھیں
وہ جس میں جان ہے اُس سے بچھڑ بھی جائیں کبھی
وہ حُسن جس پہ حسیناؤں کو بھی رشک آئے
اُسے بھی صفحۂ قرطاس پر تو لائیں کبھی
وہی کہ جس سے تکلّم کو ناز ہے ہم پر
وہ رنگ بھی تو زمانے کو ہم دکھائیں کبھی
ہمِیں پہ ختم ہے افسردگی بھی، پر ماجدؔ
کھلائیں پھول چمن میں جو مسکرائیں کبھی
ماجد صدیقی

کیسے اپنا دیا جلائیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 21
یہ رات یہ دشت کی ہوائیں
کیسے اپنا دیا جلائیں
نشہ دیتا ہے زہر غم بھی
ہے تاب ستم تو مسکرائیں
ہوتے رہتے ہیں زخم تازہ
تم ساتھ نہ ہو تو بھول جائیں
اب سوز بھی ساز چاہتا ہے
دنیا کی زباں کہاں سے لائیں
کب تک سنیں دل شکست باتیں
کب تک ہم خود کو آزمائیں
دریا کو پیاس لگ رہی تھی
صحرا سے گزر گئیں گھٹائیں
آئی وہ شاہ کی سواری
آؤ ہم تالیاں بجائیں
در سے دیوار بے خبر ہے
کیسے یہ فاصلے مٹائیں
یہ رنگ کہ رنگ اڑ رہا ہے
یہ ہوش کہ ہوش میں نہ آئیں
ہم تیرے خیال سے بھی گزرے
ایسے میں اگر مراد پائیں
ہو شوق سفر کی خیر باقیؔ
لینے لگے حادثے بلائیں
باقی صدیقی