ٹیگ کے محفوظات: مستی

میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی

مِری خودی کے نَشے سے آخر خُمارِ ہَستی نے ہار مانی
میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی
اَمیرِ شہر اَب تُو کہہ چُکا ہے تَو ایک میری بھی بات سُن لے
تِری شِکَم پَروَری سے کَب میری فاقہ مَستی نے ہار مانی
ہَر ایک خواہِش نے خُود کو تَرجیح دینا چاہی تھی مُجھ پَہ لیکِن
مِرے اُصولوں کے سامنے اُس کی خُود پَرَستی نے ہار مانی
لِباسِ مَظلوم میں ہو ظالِم بُہَت مِثالیں مِلیں گی اِس کی
کَہیِں بھی تاریخ میں نَہیِں ہے کہ چیِرہ دَستی نے ہار مانی
کَبھی پَہاڑوں کی چوٹیوں نے نَظَر بھی ڈالی نہ اُس پَہ جُھک کَر
بَلَندِیوں کی بَلا سے ضامنؔ اَگَر نَہ پَستی نے ہار مانی
ضامن جعفری

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 136
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
غرّۂِ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ زندگی ایک دن
دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن
مرزا اسد اللہ خان غالب

بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد

دیوان پنجم غزل 1605
کیا کہیے ہوئے مملکت ہستی میں وارد
بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد
کچھ ہوش نہ تھا منبر و محراب کا ہم کو
صد شکر کہ مسجد میں ہوئے مستی میں وارد
میر تقی میر

باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ

دیوان اول غزل 193
ساتھ ہو اک بے کسی کے عالم ہستی کے بیچ
باز خواہ خوں ہے میرا گو اسی بستی کے بیچ
عرش پر ہے ہم نمد پوشان الفت کا دماغ
اوج دولت کا سا ہے یاں فقر کی پستی کے بیچ
ہم سیہ کاروں کا ہنسنا وہ ہے میخانے کی اور
آگئے ہیں میر مسجد میں چلے مستی کے بیچ
میر تقی میر

کہیں غربت برستی ہے کہیں حسرت برستی ہے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 45
سرِ راہِ عدم گورِ غریباں طرفہ بستی ہے
کہیں غربت برستی ہے کہیں حسرت برستی ہے
تری مسجد میں واعظ، خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے
خمارِ نشّہ سے نگاہیں ان کی کہتی ہیں
یہاں کیا کام تیرا، یہ تو متوالوں کی بستی ہے
جوانی لے گئی ساتھ اپنے سارا عیش مستوں کا
صراحی ہے نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستی ہے
ہمارے گھر میں جس دن ہوتی ہے اس حور کی آمد
چھپر کھٹ کو پری آ کر پری خانے سے کستی ہے
چلے نالے ہمارے یہ زبان حال سے کہہ کر
ٹھہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمّت کی پستی ہے
امیر اس راستے سے جو گزرتے ہیں وہ لٹتے ہیں
محلہ ہے حسینوں کا، کہ قزاقوں کی بستی ہے؟
امیر مینائی