ٹیگ کے محفوظات: مستور

جوانی دوانی ہے مشہور ہے

دیوان دوم غزل 1035
جنوں کا عبث میرے مذکور ہے
جوانی دوانی ہے مشہور ہے
کہو چشم خوں بار کو چشم تم
خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے
فلک پر جو مہ ہے تو روشن ہے یہ
کہ منھ سے ترے نسبت دور ہے
گدا شاہ دونوں ہیں دل باختہ
عجب عشق بازی کا دستور ہے
قیامت ہے ہو گا جو رفع حجاب
نہ بے مصلحت یار مستور ہے
ہم اب ناتوانوں کو مرنا ہے صرف
نہیں وہ کہ جینا بھی منظور ہے
ستم میں ہماری قسم ہے تمھیں
کرو صرف جتنا کہ مقدور ہے
نیاز اپنا جس مرتبے میں ہے یاں
اسی مرتبے میں وہ مغرور ہے
ہوا حال بندے کا گو کچھ خراب
خدائی ابھی اس کی معمور ہے
گیا شاید اس شمع رو کا خیال
کہ اب میر کے منھ پہ کچھ نور ہے
میر تقی میر

ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 398
ایسا ہے ماہ گو کہ وہ سب نور کیوں نہ ہو
ویسا ہے پھول فرض کیا حور کیوں نہ ہو
کھویا ہمارے ہاتھ سے آئینے نے اسے
ایسا جو پاوے آپ کو مغرور کیوں نہ ہو
حق برطرف ہے منکر دیدار یار کے
جو شخص ہووے آنکھوں سے معذور کیوں نہ ہو
گیسوے مشک بو کو اسے ضد ہے کھولنا
پھر زخم دل فگاروں کا ناسور کیوں نہ ہو
صورت تو تیری صفحۂ خاطر پہ نقش ہے
ظاہر میں اب ہزار تو مستور کیوں نہ ہو
صافی شست سے ہے غرض مشق تیر سے
سینہ کسو کا خانۂ زنبور کیوں نہ ہو
مجنوں جو دشت گرد تھا ہم شہر گرد ہیں
آوارگی ہماری بھی مذکور کیوں نہ ہو
تلوار کھینچتا ہے وہ اکثر نشے کے بیچ
زخمی جو اس کے ہاتھ کا ہو چور کیوں نہ ہو
خالی نہیں بغل کوئی دیوان سے مرے
افسانہ عشق کا ہے یہ مشہور کیوں نہ ہو
مجھ کو تو یہ قبول ہوا عشق میں کہ میر
پاس اس کے جب گیا تو کہا دور کیوں نہ ہو
میر تقی میر