دِل دے کر اُن کو بیٹھے ہیں ہم دِل سے بے نیاز
وہ مثلِ آئینہ ہیں مقابل سے بے نیاز
حُسن اَزَل کی راہ میں کیا فکرِ سنگِ مِیِل
راہِ جنوں ہے دُوریِ منزل سے بے نیاز
ہر موجِ غم سے جن کو لپٹنے کا شوق ہو
کشتی کا کیا کریں گے وہ ساحل سے بے نیاز
کس بندِ آب و گِل میں بَسَر کر رہی ہے رُوح
دُنیا کے مشکلات و مراحل سے بے نیاز
خونِ وفا کو بہنا ہے ضامنؔ بہے گا وہ
ایک ایک قطرہ خنجر و قاتل سے بے نیاز
ضامن جعفری