ٹیگ کے محفوظات: مثالوں

ڈھُونڈنا ہم کو اِن حَوالوں میں

دَرد میں آنسُووَں میں چھالوں میں
ڈھُونڈنا ہم کو اِن حَوالوں میں
ڈُوبتے وَقت کی ہَنسی مَت پُوچھ
سَب ہی اَپنے تھے ہَنسنے والوں میں
مَر چُکا ہے ضمیرِ کُوزہ گَراں
گھِر گئے چاک بَد سفالوں میں
ہَم جنوں میں ہیں آپ اَپنی مِثال
ہَم کو مَت ڈھُونڈنا مِثالوں میں
آئینہ دیکھ کر شُبہ سا ہُوا
کوئی باقی ہے مِلنے والوں میں
شہر کے شہر ہو گئے خالی
لوگ بَستے ہیں اَب خیالوں میں
میں اَندھیروں میں تھا بھٹکتا رَہا
آپ کو کیا مِلا اُجالوں میں
اَور کوئی جگہ نہیں محفوظ
چَین سے رہ مِرے خیالوں میں
اُس کی آنکھیں کلام کرتی رہیِں
میں بھی اُلجھا نہیں سوالوں میں
حُسن و عشق آج کس قَدَر خُوش ہیں
آپ اُور مُجھ سے باکمالوں میں
کِس پہ ضامنؔ نے یہ کہی ہے غزل
ہیں چِہ مِیگوئیاں غزالوں میں
ضامن جعفری

ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 153
تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے
دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے
ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے
بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے
ایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئی
یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے
عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
پھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہے
احمد فراز

کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے

دیوان اول غزل 477
رہا ہونا نہیں امکان ان ترکیب والوں سے
کہ بل دے باندھتے ہیں پیچ پگڑی کے بھی بالوں سے
تجھے نسبت جو دیتے ہیں شرار و برق و شعلے سے
تسلی کرتے ہیں ناچار شاعر ان مثالوں سے
بلا کا شکر کر اے دل کہ اب معلوم ہوتی ہے
حقیقت عافیت کی اس گلی کے رہنے والوں سے
نہیں اے ہم نفس اب جی میں طاقت دوری گل کی
جگر ٹکڑے ہوا جاتا ہے آخر شب کے نالوں سے
نہیں خالی اثر سے تصفیہ دل کا محبت میں
کہ آئینے کو ربط خاص ہے صاحب جمالوں سے
کہاں یہ قامت دلکش کہاں پاکیزگی ایسی
ملے ہیں ہم بہت گلزار کے نازک نہالوں سے
ہدف اس کا ہوئے مدت ہوئی سینے کو پر اب تک
گتھا نکلے ہے لخت دل مرا تیروں کے بھالوں سے
ہوا پیرانہ سر عاشق ہو زاہد مضحکہ سب کا
کہن سالی میں ملتا ہے کوئی بھی خورد سالوں سے
رگ گل کوئی کہتا ہے کوئی اے میر مو اس کو
کمر اس شوخ کی بندھتی نہیں ان خوش خیالوں سے
میر تقی میر