دیکھتے رہنے پر ہوئے مامور
ہم کبھی اس قدر نہ تھے مجبور
اپنی شہرت بڑھانے کی خاطر
اُس نے ہم کو بھی کر دیا مشہور
دسمبر 2009
ہم دوا سے ٹھیک ہوں گے تیرے دیکھے سے نہیں
کام کرنے سے ہوا کرتے ہیں چاہے سے نہیں
دوستی میں دیکھتے ہیں وہ بس اپنا فائدہ
پھول پھل سے اُن کو دلچسپی ہے پودے سے نہیں
16 دسمبر2010
آج بھی ہم ہی سُرخرو ہوں گے
تیری تلوار ہے ہمارا سر
تجھ سے کرنی ہے اک ضروری بات
عام سی بات ہے، خدا سے ڈر
جنوری2011
جو کان میں رہ گیا سو پتھر
جو ہاتھ میں آگیا وہ ہیرا
26جولائی2011
ہے دوستی کی طرح دشمنی کا اپنا لطف
حریف بن کے ملے ہو تو یار یوں بھی سہی
29جولائی2011
جن مناظر نے خوش کیا تھا کبھی
خواب میں آکے تنگ کرتے ہیں
9اگست 2011
اگر آنسو رُکے تو ابر برسا
یہ بارش میرے پیچھے پڑ گئی ہے
22اگست 2011
آسائشِ دنیا کا سامان کچھ ایسا ہے
چھوڑا بھی نہیں جاتا ڈھویا بھی نہیں جاتا
مانندِ سراب آگے اک شے ہے عجب جس کو
پانا تو ہے ناممکن کھویا بھی نہیں جاتا
17جنوری2012
بِنا علاج بھی جیتے تھے اچھے خاصے ہم
مرض تو کچھ بھی نہ تھا مر گئے دوا سے ہم
6مئی 2012
فائدہ یہ ہے بچھڑنے کا کہ دل میں وہ مرے
ہے حسیں اتنا ہی جتنا کہ بچھڑتے ہوئے تھا
12مئی 2012
دھوپ ہنستی تھی ابھی آنگن میں
آگئے رونے رُلانے والے
31جولائی2012
پھول ہر ڈھنگ کا بہار میں تھا
برگ ہر رنگ کا خزاں میں ہے
12نومبر2012
یہ الگ بات کہ اصنام بھی لے آئے ساتھ
’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘
15فروری2013
یہ بے حسی نہیں اے دوست ضبطِ گریہ نے
ہماری آنکھوں میں اک رہگزار اتار دیا
سفر کیا ہے اک ایسی سواری پر جس نے
سوار ہونے دیا پر اتار اتار دیا
27فروری2013
رات دن ساغرِ جم دیکھتے ہیں
کس نے دیکھا ہے جو ہم دیکھتے ہیں
کیوں ہے چہرہ ترا اُترا اُترا
آنکھ بھی تھوڑی سی نم دیکھتے ہیں
27جون2013
دوست وہ جو دوستوں کے ہوں فقط سب کے نہیں
وہ جو خوش کرتے ہوں سب کو میرے مطلب کے نہیں
31دسمبر2013
باصِرؔ خلوصِ دل سے کیا تو ہے ایک عہد
اب یہ دعا کرو کہ نبھانا نصیب ہو
دوستوں کی مہربانی پوچھ لیتے ہیں ہمیں
ورنہ اِس شہرِ غرض میں کون کس کا آشنا
لڑتے کسی اور بات پر ہیں
غصہ کسی اور بات کا ہے
باصِرؔ دعائیں مانگیں تھیں عمرِ دراز کی
افسوس مت کرو کہ جوانی گزر گئی
مختلف ہیں اگرچہ ان کے نام
ملتے جلتے سے ہیں یہ سارے مقام
اُکھڑے اُکھڑے سے ہیں وہ کچھ دن سے
پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
اب انہیں فون کل کریں گے ہم
اب وہاں رات ہو گئی ہو گی