ٹیگ کے محفوظات: متاع

خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع

دیوان سوم غزل 1154
ہے مری ہر اک غزل پر اجتماع
خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع
وجد میں رکھتا ہے اہل فہم کو
میرے شعر و شاعری کا استماع
نیم بسمل چھوڑ دینا رحم کر
اس شکار افگن کا ہے گا اختراع
کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور
ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع
یار دشمن ہو گیا اس کے سبب
ہے متاع دوستی بھی کیا متاع
دل جگر خوں ہو کے رخصت ہو گئے
حسرت آلودہ ہے کیا اشک وداع
میر درد دل نہ کہہ ظالم بس اب
ہو گیا ہے سامعوں کو تو صداع
میر تقی میر

جائز ہوئی دھمال شبِ امتناع میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 309
اس نے لئے الاپ وہ بزمِ سماع میں
جائز ہوئی دھمال شبِ امتناع میں
دنیا کی خوبروئی ہے میرے طلسم سے
میرے علاوہ کیا ہے فلک کی متاع میں
بگلا کوئی اکیلا کھڑا تھا مری طرح
مرغابیوں کے ایک بڑے اجتماع میں
یہ جرم ہے تو اس کو کروں گا میں بار بار
کہنا یہی ہے میں نے بس اپنے دفاع میں
لکھی تھیں میرے حسنِ نظر کی کہانیاں
منصور آفتاب کی پہلی شعاع میں
منصور آفاق