ٹیگ کے محفوظات: مانتا

محبّت ہے اُسے پر مانتا نئیں

نہیں یہ بھی نہیں کہ جانتا نئیں
محبّت ہے اُسے پر مانتا نئیں
نجانے کب سے دل میں رہ رہا ہے
مگر اب تک مجھے پہچانتا نئیں
بَنا میں بھی ہُوں اِس مٹّی کا لیکن
میں اِس مٹّی میں خود کو سانتا نئیں
بہت دشمن ہے میرا چرخِ گردوں
مگر میں اس کو کچھ گردانتا نئیں
محبّت تَو اشاروں کی زباں ہے!
تُمہیں ہوتی تَو میں پہچانتا نئیں ؟
سُکونِ و چیَن اَگَر بَستی میں مِلتے
میں خاکِ دَشت و صحرا چھانتا نئیں
فریبِ آگَہی مَت کھانا ضامنؔ
سُکونِ دِل کو یہ پہچانتا نئیں
ضامن جعفری

اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
در بہاروں کے دلوں پر کھولتا کوئی نہیں
اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں
کون سا سرچشمۂ آلام ہے اِس قوم کا
دم بخود سارے ہیں لیکن سوچتا کوئی نہیں
چیونٹیاں پیروں تلےِپستی نظر آئیں کسے
جرم ہیں ایسے کئی پر مانتا کوئی نہیں
دیکھتے ہیں دوسروں کو اپنے آئینے میں سب
اور اپنی شکل تک پہچانتا کوئی نہیں
رہ گئی بٹ کر جزیروں میں ہر اِک انساں کی سوچ
کون کیسے جی رہا ہے پوچھتا کوئی نہیں
جو بھی کچھ کہہ جائیں ماجدؔ روپ میں فن کے یہاں
ایسی ویسی بات کو گردانتا کوئی نہیں
ماجد صدیقی

کہتا ہے بن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں

دیوان اول غزل 334
جب درددل کا کہنا میں دل میں ٹھانتا ہوں
کہتا ہے بن سنے ہی میں خوب جانتا ہوں
شاید نکل بھی آوے دل گم جو ہو گیا ہے
اس کی گلی میں بیٹھا میں خاک چھانتا ہوں
اس دردسر کا لٹکا سر سے لگا ہے میرے
سو سرکا ہووے صندل میں میر مانتا ہوں
میر تقی میر

بس توجہ زیاد مانگتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 12
نے ستائش نہ داد مانگتا ہوں
بس توجہ زیاد مانگتا ہوں
کتنا سادہ ہوں پیرِ دنیا سے
طفل کا اعتماد مانتا ہوں
حرف ڈھونڈوں الف سے پہلے کا
فکر و فن طبع زاد مانگتا ہوں
پیکرِ خاک ہوں نمو کے لئے
آتش و آب و باد مانگتا ہوں
اتنی آگیں کہ رات، دن سی لگے
دل میں ایسا فساد مانگتا ہوں
سنگ کر دے نہ دیدِ گم شدگاں !
اپنے نسیاں سے یاد مانگتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم