اپنی اپنی مجبوری سے ہارے رہتے ہیں
محرومی کے بوجھ تلے بے چارے رہتے ہیں
بھوک، معاشی بدحالی اور بیماری سے تنگ
دونوں ہی ملکوں میں غم کے مارے رہتے ہیں
کون بھلا پھیلائےامن و محبت کا پیغام
شاعر بن کر نفرت کے ہرکارے رہتے ہیں
میرے پیارے ہی رہتے ہیں سرحد کے اِس پار
سرحد کے اُس پار بھی میرے پیارے رہتے ہیں
دن بھر پھرتے رہتے ہیں لاھور کی گلیوں میں
رات کو ہم دلّی میں پاؤں پسارے رہتے ہیں
آپ کے پیارے بلھے شاہ کا مسکن اِدھر قصور
اور اُدھر غالب اور میر ہمارے رہتے ہیں
ایک ہی ساگر بنتا ہے پانی کا انت پڑاؤ
الگ الگ چاہے دریا کے دھارے رہتے ہیں
عرفان ستار